باغیوں نے یوکرائن کا جنگی طیارہ مار گرایا
30 اگست 2014یوکرائن کے دارالحکومت کییف سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق ملکی فضائیہ کے اس فائٹر طیارے کی تباہی کی تصدیق مشرقی یوکرائن میں روس نواز باغیوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے فیس بک پر بنائے گئے پیج پر آج ہفتے کے روز کی گئی۔
یوکرائنی فورسز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس طیارے کو باغیوں نے ایک روسی ساختہ میزائل کے ساتھ جمعے کے روز نشانہ بنایا جبکہ اس Su-25 جنگی ہوائی جہاز کا پائلٹ ایمرجنسی سیٹ کے ذریعے طیارے سے بروقت نکلنے میں کامیاب رہا۔ اس بیان میں مزید کوئی تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا ہی کہا گیا ہے کہ طیارے کو جس میزائل سے نشانہ بنایا گیا، وہ ایک روسی لانچر سے فائر کیا گیا تھا۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے خیال میں اس وقت مشرقی یوکرائن میں روس کے کم از کم ایک ہزار فوجی موجود ہیں جبکہ کییف حکومت کی طرف سے اسی ہفتے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ علیحدگی پسند باغیوں نے بحیرہء آذوف کے ساحل کے ساتھ ساتھ حال ہی میں جو نیا جنگی محاذ کھولنے کی کوشش کی، اس سے قبل بہت سے روسی ٹینک اور بکتر بند فوجی گاڑیاں سرحد پار کر کے مشرقی یوکرائن میں داخل ہو گئے تھے۔
یوکرائن کے پھیلتی ہوئی خانہ جنگی بنتے جا رہے خونریز تنازعے میں اس ہفتے کے شروع تک کییف حکومت کے فوجی دستوں اور روس نواز باغیوں کے مابین لڑائی زیادہ تر چاروں طرف سے خشکی میں گھرے علاقوں میں ہو رہی تھی۔ لیکن پھر باغیوں نے مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے شہر نوووآذوفسک پر قبضہ کر لیا۔ اس عسکری پیش قدمی کا مقصد بظاہر یہ کوشش ہے کہ باغی مغرب کی طرف بڑھتے ہوئے بحیرہء آذوف کے اس ساحلی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیں، جو چند ماہ پہلے روس میں شامل کیے جانے والے جزیرہ نما کریمیا کو باقی ماندہ روس کے ساتھ ملاتا ہے۔
مشرقی یوکرائن میں علیحدگی پسندی کے چار ماہ پرانے تنازعے کا جغرافیائی طور پر اس طرح پھیلنا مغربی دنیا کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے اور اسی لیے روس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ یوکرائن کے بحران میں دخل اندازی بند کر دے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے کل جمعے کو ہونے والے ایک اجلاس میں بہت سے رکن ملکوں کی طرف سے ماسکو پر مشرقی یوکرائن میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ روس کے خلاف زیادہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی جانی چاہییں۔ سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بلٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ یوکرائن کے علاقے میں یوکرائن ہی کی فوج کے خلاف روسی فوج کے باقاعدہ دستے جارحانہ سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔‘‘
برسلز میں 28 رکنی یورپی یونین کے آج ہفتے کے روز ہونے والے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں بھی یوکرائن کا بحران سرفہرست ہو گا اور یورپی رہنما اس بارے میں غور کریں گے کہ آیا روس پر نئی اقتصادی پابندیاں لگائی جانی چاہییں۔