بال رنگنے اور سیدھے کرنے سے سرطان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، رپورٹ
5 دسمبر 2019یہ تازہ تحقیق منگل تین دسمبر کے روز 'انٹرنیشنل جرنل آف کینسر‘ میں شائع کی گئی۔
محققین نے اس رپورٹ کی تیاری کے لیے بالوں کو ڈائی کرنے اور سیدھا کرنے والی قریب 47 ہزار خواتین کی صحت کا جائزہ لیا۔ ان خواتین نے سن 2003 اور سن 2009 کے درمیان رضاکارانہ طور پر اس تحقیقی جائزے میں شمولیت اختیار کی تھی۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ تحقیقی جائزے میں حصہ لیتے وقت ان خواتین کی کم از کم ایک بہن چھاتی کے سرطان کے مرض میں مبتلا ہو چکی تھی لیکن اس وقت تک وہ خود صحت مند تھیں۔
جائزے میں سیاہ فام اور سفید فام خواتین شامل تھیں اور نصف سے زائد نے بالوں کا رنگ مستقل طور پر بدلنے والے مصنوعات استعمال کی تھیں۔ کم از کم ایک برس تک بالوں کی ڈائینگ اور سیدھا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے کے بعد ان کی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
سیاہ بالوں کی مصنوعات خاص طور پر خطرناک
محققین نے اس رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایسی مصنوعات کے استعمال اور چھاتی کے سرطان میں براہ راست تعلق موجود ہے۔
بالوں کے لیے دستیاب مصنوعات میں 'اینڈوکرین ڈسرپٹرز‘ استعمال کیے جاتے ہیں جو ممکنہ طور پر سرطان کا سبب بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سیاہ بالوں کے لیے استعمال ہونے والی مصنوعات میں ایسے کیمائی اجزا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس لیے انہیں استعمال کرنے والی خواتین کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
سیاہ فام خواتین کے لیے نتائج انتہائی منفی
اس تحقیقی جائزے کے مطابق بالوں کو رنگنے اور سیدھا کرنے والی سیاہ فام خواتین کے بریسٹ کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات سفید فام خواتین کی نسبت کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔
بالوں کو طویل مدت کے لیے ڈائی کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔
سیاہ بالوں والی اور سیاہ فام خواتین کے چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ 60 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سفید فام خواتین کے لیے ایسا خطرہ صرف آٹھ فیصد ہوتا ہے۔
اسی طرح چھ سے آٹھ ہفتوں کے بعد بالوں کو سیدھا کرنے والی مصنوعات کے استعمال سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کی شرح مجموعی طور پر 30 فیصد بنتی ہے۔
سیاہ بالوں کو سیدھا کرنے والی مصنوعات بھی خاص طور پر انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔ اس تحقیق میں شامل 74 فیصد سیاہ فام خواتین ایسی مصنوعات کے بعد بریسٹ کینسر میں مبتلا ہوئیں جب کہ سفید فام خواتین میں یہ شرح 7 فیصد دیکھی گئی۔