بالی وُڈ میں سوانحی فلموں کا بڑھتا ہوا رجحان
1 اگست 2010پہلی فلم ’وَنس اپان اے ٹائم اِن ممبئی‘ ہے، جس میں ستر کے عشرے میں دو جرائم پیشہ افراد کے درمیان جاری کشمکش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس فلم میں اجے دیوگن اور عمران ہاشمی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم یہ فلم اپنی ریلیز سے پہلے ہی ایک تنازعے کا شکار ہو گئی ہے۔
اسمگلنگ کی دُنیا کے بے تاج بادشاہ حاجی مستان مرزا کا لے پالک بیٹا سندر شیکھر اِس فلم کی نمائش رُکوانا چاہتا ہے۔ چون سالہ سندر شیکھر کی کوشش ہے کہ پہلے اِس فلم کا پرنٹ اُسے دکھایا جانا چاہئے۔ شیکھر کے مطابق اِس فلم کی تشہیر میں کہا جا رہا ہے کہ یہ فلم مستان کی زندگی پر مبنی ہے لیکن اِس فلم میں مستان کو ایک بدمعاش کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔ سندر شیکھر کا موقف ہے کہ حاجی مستان دراصل ایک سماجی کارکن تھا، ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتا تھا اور کئی گھرانوں کی مالی ضروریات پوری کیا کرتا تھا۔
رواں ہفتے ممبئی کی ہائیکورٹ نے سندر شیکھر کے خلاف فیصلہ دیا لیکن اِس فلم کے پروڈیوسرز پر بھی یہ بیان جاری کرنے کے لئے زور دیا کہ یہ فلم کسی شخص کی ذاتی زندگی پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض ایک فرضی کہانی ہے۔
اِسی طرح کی ایک اور فلم ’بھاگ مِلکھا بھاگ‘ ہے۔ اس فلم میں بھارت کے کامیاب ترین ایتھلیٹس میں سے ایک مِلکھا ’دی فلائنگ سکھ‘ سنگھ کی زندگی کی داستان پیش کی گئی ہے۔ مِلکھا نے 1960ء کے روم اولمپکس میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔
ایک اور فلم ’پان سنگھ تومار‘ میں بھی، جس میں مرکزی کردار عرفان خان ادا کر رہے ہیں، بھارتی فوج سے تعلق رکھنے والے ایک کھلاڑی پان سنگھ کی زندگی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ سال کے آخری حصے میں ریلیز ہونے والی اِس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے اِس کامیاب کھلاڑی نے بعد میں جرائم کی زندگی اختیار کر لی۔
نامور ہدایتکار رام گوپال ورما مقتول سیاسی رہنما پریتالا روی کی زندگی پر فلم بنا رہے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ایسی کئی شخصیات پر بھی فلمیں بنائی جا رہی ہیں، جنہیں بیس ویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی بالی وُڈ کے سنہری دَور میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ ان شخصیات میں مایہ ناز گلوکار کشور کمار کے ساتھ ساتھ اداکار، فلمساز و ہدایتکار گرو دَت بھی شامل ہیں، جنہیں ’بھارت کا آرسن ویلز‘ کہا جاتا تھا۔
اُنیس ویں صدی کے ایک ہندوستانی مصور راجہ روی ورما پر بھی ایک فلم بنائی جا رہی ہے، جو مصوری کی بھارتی روایات کو مغربی کلاسیکی پینٹنگ کے ساتھ کامیابی سے جوڑنے کی بناء پر شہرت رکھتے ہیں۔
بالی وُڈ میں اِس سے پہلے بھی سوانحی فلمیں بنائی جا چکی ہیں، جن میں مثلاً آزادی کے ہیروز پر شہید بھگت سنگھ اور منگل پانڈے جیسی فلمیں بھی شامل تھیں، تاہم اِنہیں باکس آفس پر زیادہ کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ موجودہ رجحان کو محض فلمی روایات میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا متعارف کروانے کی ایک کوشش کہا جا سکتا ہے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: ندیم گِل