بجلی اور پٹرولیم مصنوعات مہنگی، عوام سراپا احتجاج
1 اکتوبر 2013بجلی کی قیمت میں اوسط گھریلو صارفین کے لیے پانچ روپے فی یونٹ جب کہ پٹرول کی قیمت میں فی لٹر 4 روپے 12 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے 69 پیسے اضافہ کیا گیا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں یہ اضافہ یکم اکتوبر سے نافذ العمل ہو گیا ہے۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا بلکہ بجلی کے نرخوں پر دی جانے والی سبسڈی واپس لی ہے، جس سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے دو سو یونٹس استعمال کرنے والے عام گھریلو صارفین متاثر نہیں ہوں گے۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے خلاف تحاریک التواء جمع کرائی ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ق) نے حکومت سے قیمتوں میں حالیہ اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اضافہ واپس نہ لیا گیا تو ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ ان جماعتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے جو وعدے کیے تھے، عوام کو ان کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں ایک دوکان پر کام کرنے والے سیلز مین محمد رفیق نے حالیہ مہنگائی کے بعد ڈوئچے ویلے کو اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا کہ اُس کی تنخواہ 15 ہزار 8 سو روپے ہے اور چھ بچے ہیں جو سارے اسکول جاتے ہیں، اب اس تنخواہ میں ان کو پالُوں یا بجلی اور سوئی گیس کے بل دوں؟
بین الاقوامی اسلامی یونورسٹی اسلام آباد میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم واصف کریم کا کہنا تھا کہ حکومت اقدامات کے سبب ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روز گاری کے ساتھ ساتھ دہشت گردی بڑھنے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ واصف کے مطابق دہشت گردی نے پہلے ہی آتش فشاں کی طرح پھٹ کر پورے ملک کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو عوام پہلے ہی مر رہے ہیں۔ انہوں نے اور کیا کرنا ہے دہشت گردی ہی بڑھنا ہے۔ دوسرے لوگ بھی دہشت گرد بنیں گے اور وہی کریں گے جو لوگ پہلے کر رہے ہیں۔
ادھر بعض لوگ مسلم لیگ ن کی حکومت سے بھی ناراض نظر آتے ہیں۔ ایک شہری ملک فہیم اعوان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کبھی مسلم لیگ (ن) کو ووٹ نہیں دیا تھا، اس مرتبہ ووٹ دیا اور وجہ یہ تھی کہ یہ پچھلی حکومت کے خلاف بہت باتیں کرتے تھے۔ یہی کہتے تھے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے لیکن اب یہ ان کا بھی نمبر کاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے مہنگائی دوگنا کر دی ہے۔
بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ناراض ایک بزرگ شہری نے حکومت کو کفایت شعاری اپنانے اور حکومتی اخراجات میں کمی کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایم این اے اور ایم پی اے افراد کی تنخواہیں کم کر دیں۔ ان کے فضول اخراجات پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ ان کی گاڑیاں کم کریں۔ ان کے لیے ایک گاڑی کافی ہے۔ ایک ایک وزیر کے گھر اور دفتر میں دس سے بارہ گاڑیاں کھڑی ہیں۔
منگل کے روز سپریم کورٹ نے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کانوٹس لیتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ملک میں نادرشاہی نظام نہیں چلے گا۔ حکومت ازخود کس طرح بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر سکتی ہے۔ عدالت نے حکومتی نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت کل (بدھ)تک ملتوی کر دی۔