بجلی سے چلنے والی کاروں پر جرمنی بھر کا آزمائشی سفر
1 اگست 2016جرمنی میں بنی ہوئی برقی کاروں کے پانچ ماڈلز کے ساتھ جرمنی بھر کا آزمائشی سفر کرنے والے ڈی ڈبلیو کے رپورٹرز یوآخیم ایگرز اور کرسٹیان رومان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگرچہ قدم قدم پر مدد کرنے والے مل جاتے ہیں لیکن ابھی اکیلے ایک برقی کار کے ساتھ جرمنی بھر کا سفر کرنا بہت مشکل ہے۔
سب سے بڑا چیلنج بیٹریاں چارج کرنا ہوتا ہے: ’’کسی دُور دراز علاقے میں کاروں کے کسی شو روم کے عقبی حصے میں چارجنگ اسٹیشن کے سامنے کھڑا بندہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اب آگے کیا کرنا ہے۔‘‘
ان دونوں کو اپنے اس سفر کے دوران پچیس مرتبہ اپنی کاروں میں بجلی ’بھروانا‘ پڑی۔ ابتدا میں یہ کام مشکل لگا لیکن پھر اُنہیں اس کی عادت ہوتی چلی گئی۔ کبھی کبھی چارجنگ کا عمل چالیس منٹ میں بھی مکمل ہو جاتا تھا اور کبھی کبھی بیٹری کے چارج ہونے میں آدھا دن صَرف ہو جاتا تھا۔ اس عمل کے جلد یا دیر سے مکمل ہونے کا انحصار ساتھ دی گئی تاروں پر ہوتا ہے۔
ان دونوں نے دو ہفتوں کے دوران جرمنی کے ایک سے دوسرے سرے تک تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ عام پٹرول پمپوں پر برقی کاروں کی بیٹریاں چارج کرنے کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔ زیادہ تر اُنہیں موٹر وے سے اُتر کر شہروں کے اندر جانا پڑتا تھا۔
اس سفر کے دوران دیگر کاریں ان کے پاس سے سنسناتی ہوئی رفتار کے ساتھ گزرتی رہیں لیکن وہ دونوں آرام سے موٹر وے کے ایک طرف زیادہ سے زیادہ اَسّی کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ محوِ سفر رہے۔
ان دونوں نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کی جانب سے اپنے اس سفر کے دوران فوکس ویگن کی جس کار میں سفر کیا، اُس کی قیمت اُنتیس ہزار یورو تھی جبکہ امریکی ادارے ٹیسلا کی برقی کاروں کی قیمت ستر ہزار یورو سے شروع ہوتی ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ جرمن کار ساز اداروں نے، جن میں فوکس ویگن، مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو بھی شامل تھے، اس آزمائشی سفر کے لیے اپنی گاڑیاں بادل نخواستہ ہی فراہم کیں: ’’لیکن مکمل طور پر چارج بیٹری کے باوجود اِن میں سے کسی ایک بھی کار کے ساتھ ہم ایک سو تیس کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار کے ساتھ سفر نہ کر سکے جبکہ ہمیں دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کا کہا گیا تھا۔‘‘
اگرچہ دونوں رپورٹرز کے لیے یہ سفر کسی مہم سے کم نہ تھا لیکن وہ بہرحال اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مستقبل اسی ٹیکنالوجی کا ہے۔