بحرانوں سے نمٹنے والی رہنما ’يورپ کی ملکہ‘ انگيلا ميرکل
19 نومبر 2015گزشتہ چند برسوں کے دوران يونانی شہريوں نے ميرکل کے پتلے نذر آتش کيے اور اب وہ مہاجرين کی بڑی تعداد ميں يورپ آمد کا ذمہ دار بھی جرمن چانسلر کو ہی قرار ديتے ہيں ليکن اقتصادی ميدان ميں جرمنی کی سبقت اور حريفوں کی کمزوری کے سبب ميرکل کو ’يورپ کی ملکہ‘ کا خطاب ديا جا رہا ہے۔ يہ بھی سچ ہے کہ مہاجرين کے معاملے پر اپنے ’اخلاقی‘ موقف کی وجہ سے داخلی سطح پر ميرکل کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔
کارنيگی يورپ تھنک ٹينک سے وابستہ جوڈی ڈيمپسی کہتی ہيں، ’’چونکہ يورپ بحرانوں کو قبل از وقت سمجھنے ميں اس قدر غير موثر رہا ہے، اب يہ ميرکل پر آن پڑا ہے کہ وہ يورپی يونين کو کسی ممکنہ سانحے سے بچائيں۔‘‘ فوربز جريدے ميں سب سے طاقتور اور با اثر عالمی ليڈرز کی فہرست ميں ميرکل اب امريکی صدر باراک اوباما سے اوپر تيسرے نمبر پر ہيں۔ اکانومسٹ ميگزين نے ميرکل کو ايک ايسی رہنما قرار ديا، جن کے بغير يورپ کا گزارا نہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ انگيلا ميرکل چانسلرشپ کے اپنے دوسرے دور ميں صحيح طريقے سے يورپی ’ڈراموں‘ ميں الجھيں اور ان کا حل تلاش کيا۔ يورپين پاليسی سينٹر کے ڈائريکٹر آف اسٹڈيز Janis Emmanouilidis کہتے ہيں، ’’مشکل مراحل اور بحرانوں ميں ميرکل نے قيادت پر مبنی اور فيصلہ کن کردار ادا کيا۔‘‘
يورو زون کو درپيش مالياتی بحران کے دوران يونان ميں کٹوتياں متعارف کرائی گئيں، جس سبب ميرکل کو يونان ميں داخلی سطح پر کافی نا پسند کيا جاتا رہا۔ تاہم وہ ميرکل ہی تھيں، جنہوں نے کليدی کردار ادا کرتے ہوئے ايتھنز کو يورو زون کے اخراج سے بچايا۔ اس دوران انہيں يونانی وزير اعظم اليکسيس سپراس کے ساتھ متعدد ايسے اجلاسوں ميں شرکت کرنا پڑی، جن ميں شرکت سے ديگر يورپی رہنما کتراتے نظر آئے۔
بعد ازاں يوکرائنی تنازعے کے حل کے ليے رواں برس فروری ميں جرمن چانسلر انگيلا ميرکل فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ کے ہمراہ منسک گئيں اور وہاں جنگ بندی کے ايک معاہدے کو حتمی شکل دی۔
ليکن شايد ميرکل نے سب سے اہم کردار پناہ گزينوں کے بحران ميں ادا کيا۔ جب مہاجرين سمندروں ميں ڈوب رہے تھے، يورپی سياستدان دائيں بازو کی قوتوں سے ہار جانے کے خوف ميں مبتلا يہ سب کچھ ديکھ رہے تھے، اس وقت ميرکل نے يہ اعلان کر کے کہ شامی پناہ گزينوں کے ليے جرمنی کے دروازے کھلے ہيں، دنيا کو حيران کر ڈالا۔ گو کہ يہ بھی حقيقت ہے کہ وہی قيادت کا لمحہ چانسلر کے ليے خطرہ بھی بنا ہوا ہے۔
چند مشرقی يورپی ممالک جرمن چانسلر پر الزام عائد کرتے آئے ہيں کہ وہ پناہ گزينوں کی حوصلہ فزائی کرتی ہيں کہ وہ ان کے ملکوں سے گزريں۔ نتيجتاً متعدد ممالک ميں بارڈر کنٹرول کی بحالی نے اب شينگن زون کو خطرے ميں ڈال ديا ہے۔ ميرکل کے ليے ايک اور مسئلہ داخلی سطح پر ان کی مقبوليت ميں کمی ہے، جو رائے عامہ کے جائزوں ميں صاف ظاہر ہے۔
يورپين پاليسی سينٹر کے ڈائريکٹر آف اسٹڈيز Janis Emmanouilidis کہتے ہيں کہ يورپی سطح پر اس وقت کوئی بھی اہم قدم جرمنی کے بغير نہيں اٹھايا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی برلن ميں حکومت کی باگ ڈور سنبھال رہا ہو گا، وہ يورپی سطح پر کليدی کردار ادا کرےگا۔