بحری کمانڈر کی معطلی کے بعد جرمن وزیر دفاع دباؤ میں
24 جنوری 2011وفاقی جرمن وزیر دفاع کارل تھوڈور سو گٹن برگ نے اس جہاز کے کمانڈر کو معطل کر دیا ہے اور ان کی خواہش ہے کہ اب نئے فوجی افسروں کی تریبت کے حوالے سے تمام مبینہ خامیوں اور منفی واقعات کی چھان بین کی جائے۔
’’پہلے بڑی محتاط چھان بین ہونی چاہیے اور اس کے بعد نتائج اخذ کیے جانے چاہیئں۔‘‘ جمعہ کے روز سو گٹن برگ نے اُس وقت یہی بات کہی تھی جب ملکی میڈیا میں وفاقی فوج کے حوالے سے منفی واقعات کی نئی تفصیلات سامنے آنے لگی تھیں۔
تب انہوں نے کہا تھا کہ قبل از وقت سزا دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ پھر چند ہی گھنٹے بعد انہوں نے جرمن بحریہ کے تربیتی جہاز گورش فوک کے کمانڈر کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اپوزیشن نے اسے بہت زیادہ جلدی میں کیا جانے والا فیصلہ قرار دے کر اس پر تنقید کی تھی۔ جرمن وزیر نے اس بحری جہاز کی ارجنٹائن سے فوری طور پر وطن واپسی کا حکم دیا تھا، جہاں یہ جہاز اگلے فیصلے تک کیل کی شمالی بندرگاہ میں لنگر انداز رہے گا۔
اس موقع پر سوگٹن برگ نے کہا تھا، ’’حقیقی بنیادوں پر ہلا کر رکھ دینے والی ایسی بہت سی رپورٹوں کے بعد تو کوئی بھی فیصلہ معمول کے ایجنڈے کے مطابق نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا تو نہیں ہوتا۔‘‘
ان ہلا کر رکھ دینے والی رپورٹوں کا ذریعہ زیادہ تر جرمن روزنامہ ’بلڈ‘ ہے۔ اخبار کے مطابق اس بحری جہاز پر تربیت کے دوران غیر معمولی حد تک سخت محنت اور زیر تربیت افسران کی کم خوابی معمول کی باتیں تھیں۔ بلڈ کے مطابق گزشتہ نومبر میں ایک 25 سالہ زیر تربیت خاتون افسر کی جہاز کے ایک پول سے گر کر موت کے بعد اس تربیتی بحری جہاز کی عسکری کمان نے بڑے آرام سے کارنیوال منایا تھا۔
بظاہر ایسی رپورٹوں کے بعد وفاقی وزیر دفاع کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ انہوں نے وفاقی جرمن فوج کے انسپکٹر جنرل کو حکم دیا کہ بری، بحری اور فضائی دستوں میں ایسے تمام اقدامات کی چھان بین کریں، جو فیڈرل آرمی کے بنیادی اصولوں کی نفی کرتے ہوں۔
وزیر دفاع سو گٹن برگ کے اس فیصلے کے بعد جرمن پارلیمان میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کے حزب کے سربراہ ژرگن ٹریٹین نے کہا کہ وزیر دفاع اپنے فیصلوں کی بنیاد اس جرمن اخبار کو بناتے ہیں، جو انہیں جرمنی کا مقبول ترین وزیر قرار دیتے ہوئے ہمیشہ ان کے بارے میں بہت اچھا ہی لکھتا ہے۔
اس بارے میں ژرگن ٹریٹین کا کہنا تھا، ’’جب سو گٹن برگ کو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ بلڈ اخبار کی حمایت سے محروم ہو سکتے ہیں، تو وہ جلد بازی میں فیصلے کرنے لگتے ہیں۔‘‘
افغان شہر قندوز میں فضائی حملے کے حوالے سے بھی سو گٹن برگ نے دباؤ میں آ کر ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا۔ تب بھی میڈیا میں نیٹو کے اس ہلاکت خیز فضائی حملے کی ایسی تفصیلات شائع ہوئی تھیں، جو جرمن وزیر دفاع کو بھی معلوم نہیں تھیں۔ اس وجہ سے سو گٹن برگ نے یکدم دو ایسے انتہائی اعلیٰ اہلکاروں کو برطرف کر دیا تھا، جو ان کو بروقت اور کافی معلومات مہیا کرنے میں ناکام رہے تھے۔
اس بارے میں جرمنی کی لیفٹ پارٹی کے سربراہ کلاؤس ایرنسٹ کہتے ہیں، ’’میری رائے یہ ہے کہ جب وزیر دفاع کے ارد گرد ماحول تنگ ہونے لگتا ہے، تو ان کے قریبی لوگ ہی نشانہ بننے لگتے ہیں۔ ایک پارلیمانی جمہوری نظام میں فوج کے بارے میں فیصلے ایسے نہیں کیے جاتے۔‘‘
وفاقی جرمن فوج کے مختلف شعبوں میں ایسے واقعات کے بارے میں خود وزیر دفاع سو گٹن برگ کا کہنا ہے کہ یہ ایسے منفی لیکن انفرادی واقعات ہیں، جو ایک ایسی فوج میں دیکھنے میں آ ہی سکتے ہیں، جو ایک چوتھائی ملین فوجیوں پر مشتمل ہے۔
لیکن کئی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب ایسے واقعات اور غلط فیصلے اپنی تعداد اور شدت میں اتنے زیادہ ہونے لگیں، تو پھر قدامت پسندوں کی پارٹی CSU سے تعلق رکھنے والے اس 39 سالہ وزیر کو اس کی سیاسی ذمہ داری بھی خود اپنے سر لینا چاہیے۔
رپورٹ: نینا ویرک ہوئزر / مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد