بدلتے رویے، لڑکیاں اب سائیکل پر اسکول جائیں گی
6 مئی 2016بارہ سالہ فاطمہ کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع پاک پتن کی تحصیل عارف والا کے ایک انتہائی پسماندہ گاؤں سے ہے۔ فاطمہ کی والدہ انتقال کر چکی ہیں، والد فالج کے مرض کے باعث چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ غربت زدہ اس گھرانے کو تعلیم کی اہمیت کا پتا ہے تبھی انہوں نے فاطمہ کو اسکول میں داخلہ کرایا تھا۔ تاہم ماں کی وفات اور والد کی بیماری کے باعث اس کے لیے روزانہ 5 سے 6 کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کر کے اسکول جانا نہایت مشکل ہوگیا تھا۔ فاطمہ کی یہ مشکل اُسے دی جانے والی ایک بائیسکل نے حل کر دی ہے۔
یہ سائیکل اسے ایک مقامی این جی او ’اَرج ڈیویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے دی گئی ہے۔ اب فاطمہ روز اس سائیکل پر اسکول آتی جاتی ہے۔ سائیکل نے نہ صرف اسے اعتماد دیا ہے بلکہ گاؤں کی گلیوں، کھیتوں اور سٹرکوں پر سائیکل چلا کر اسکول پہنچنے والی فاطمہ میں آگے بڑھنے کی امید بھی پیدا کر دی ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پڑھ لکھ کر ٹیچر بننا چاہتی ہے، اسے آزاد فضا میں سائیکل چلانا بہت پسند ہے۔
فاطمہ کے علاوہ اس کے اسکول کی کئی اور لڑکیوں کو بھی اس غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سائیکلیں دی گئی ہیں۔ فاطمہ کے اسکول کی پرنسپل نسیم اشرف نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں بتایا، ’’اس سرکاری اسکول میں عارف والا کے آس پاس کے دیہات کی بچیاں آتی ہیں، بہت سی لڑکیاں گرمی میں لمبی مسافت پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہیں۔ سائیکل ملنے کے بعد اب بہت سی لڑکیاں چھٹیاں کم کرتی ہیں۔‘‘ نسیم اشرف کہتی ہیں کہ مجھے ڈر تھا کہ والدین اپنی بچیوں کو سائیکل نہیں چلانے دیں گے لیکن جب اسکول کی نہایت غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بچیوں کو سائیکلیں دی گئیں تو والدین بہت خوش ہوئے۔
سائیکل لینے والی ایک اور بچی رابعہ کے والد جمال دین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’میری بیٹی سائیکل ملنے سے پہلے رکشے میں اسکول جاتی تھی، میں ہر ماہ رکشے والے کو پانچ سو روپے کرایہ دیتا تھا۔ اب میری بچت ہو رہی ہے اور میری بیٹی خوشی سے روز سائیکل پر اسکول جاتی ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا کہ کیا گاؤں میں کچھ افراد اعتراض تو نہیں کرتے کہ لڑکی اکیلے سائیکل چلا کر اسکول جاتی ہے تو جمال دین نے کہا کہ اب تو لڑکیاں موٹر سائیکل چلاتی ہیں، اگر میری بیٹی سائیکل چلائے تو اس میں کیا عیب ہے۔
عارف والا میں ’اَرج ڈیویلپمنٹ اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن‘ کے نمائندے خالد فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تحصیل عارف والا میں کل 210 سائیکلیں بچیوں کو تقسیم کی گئی ہیں۔ سائیکل دینے سے پہلے والدین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور ان کی مرضی ہو تو ہی لڑکیوں کو سائیکلیں دی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نے مقامی مسجد کے امام قاری محمد افضل سے بھی ان کا موقف جانا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایک لڑکی نہایت گرمی میں روز پیدل چل کر اسکول پہنچتی ہے۔ اگر وہ سائیکل چلا کر اسکول پہنچے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘‘ قاری صاحب نے علاقے میں ایک عمدہ مثال ایسے قائم کی ہے کہ ان کی اپنی بیٹی بھی اب سائیکل پر ہی اسکول جاتی ہے۔
ایک بچی رومیسہ رمضان کے والد نے اس حوالے سے کہا، ’’میں مزدوری کرتا ہوں، روز موٹر سائیکل پر اپنی بچی کو اسکول چھوڑنے جاتا تھا، جس سے میرا کام متاثر ہوتا تھا، کبھی دیر ہو جانے سے مزدوری نہیں ملتی تھی لیکن اب مجھے اپنی بیٹی کو اسکول چھوڑنے اور اسے واپس گھر لانے کی فکر نہیں ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں:’’مجھے احساس ہو گیا ہے کہ غربت سے نکلنے کے لیے مجھے اپنی بیٹی کو پڑھانا ہو گا تاکہ اس کا مستقبل روشن ہو، وہ ہم سے بہتر زندگی گزار سکے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری بیٹی کو دی جانے والی سائیکل صرف ذریعہٴ آمد ورفت نہیں ہے، یہ اسے ایک روشن مستقبل کی طرف لے جانے کی سیٹرھی ہے۔‘‘