بدنام زمانہ بگرام جیل: قیدیوں کو انصاف ملنے کی امید
26 مئی 2010افغان اور امریکی حکام کے مطابق بگرام جیل کے قیدیوں کو یکم جون سے وکیل کرنے اور اپنا مقدمہ لڑنے کا حق مل جائے گا۔ اس سے قبل انہیں یہ حق حاصل نہیں تھا۔ افغانستان میں متعین غیر ملکی افواج کے تحت جیل خانوں کے امور کے نگران بریگیڈیئر جنرل مارک مارٹنز کے بقول افغان قاضی کے سامنے یہ قیدی اپنا مقدمہ لڑیں گے اور ملکی سلامتی کے لئے اپنے آپ کو غیر مضر ثابت کرنے پر رہائی کے حقدار ٹھہریں گے۔ اگلے دو سال میں جیل خانوں سے متعلق تمام امور افغان حکام کو سپرد کردئے جائیں گے۔
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد بگرام کا ہوائی اڈہ غیر ملکی فوج کی مرکزی قیام گاہ بنا اور اسی میں ایک جیل خانہ قائم کیا گیا تھا۔ اس جنگ کے اوائلی دنوں میں اس جیل خانے سے متعلق کسی کو زیادہ سننے یا دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ افغان عوام میں البتہ بگرام کا جیل خانہ، تشدد اور ظلم کی علامت بنا رہا۔
2002ء میں بگرام کے دو قیدی مبینہ طور پر امریکی فوج کے تشدد کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ متعدد دیگر قیدیوں نے بھی دوران حراست اپنے اوپر تشدد کئے جانے کی شکایات کی ہیں۔ بگرام جیل میں تشدد کی کہانیوں اور عراق کی ابوغریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی تصاویر ذرائع ابلاغ پر آنے کے بعد دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف اشتعال پھیلا تھا۔
2009ء میں جاکر امریکی صدر باراک اوباما نے بگرام کے قیدیوں کو قانونی حقوق کی فراہمی اور ہر چھ ماہ بعد ان کے معاملات کی جانچ کا اعلان کیا تھا، جس پر اب عملدرآمد ہونے جارہا ہے۔ بریگیڈیئر جنرل مارک مارٹنز کا کہنا ہے کہ قیدیوں پر تشدد کرنا پہلے بھی قانونی طور پر ٹھیک نہیں تھا البتہ اب جو تبدیلی کی گئی اس کے تحت بعض طریقوں کو منسوخ کردیا گیا۔
2010ء کے اوائل میں بگرام ایئر بیس کے قیدیوں کو پرانے جیل خانے سے ملحق ایک نئے جیل خانے میں منتقل کیا گیا۔ اس نئی جیل میں بڑی حد تک قیدیوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان میں متعین غیر ملکی افواج کے کمانڈر جنرل سٹینلے مک کرسٹل کے مطابق قیدیوں کے لئے بہتر سہولیات کی فراہمی اس لئے بھی ضروری تھی تاکہ ان کی نظام سے نفرت نہ بڑھے اور وہ شدت پسندی ترک کرسکیں۔
نئے جیل خانے کے دورے کے دوران بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے نمائندے نے جو مناظر دیکھے، وہ کچھ اس طرح ہیں۔ ’’ایک کھولی میں باریش قیدی بیٹھا تسبیح پڑھ رہا تھا۔ ایک اور کھولی میں ایسے ہی ایک باریش قیدی سے ملنے ایک پردہ دار خاتون آئی تھی جبکہ ان کے برابر بیٹھا ایک مغربی ملک کا شہری ان دونوں کی باتوں کے نوٹس لکھ رہا تھا۔اس جیل خانے میں وہ قیدی، جنہیں سلامتی کے لئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے وہ نارنجی رنگ کی شلوار قمیض پہنے تھے۔ قیدیوں کو بنیادی تعلیم اور زراعت کی تکنیک سکھانے کا بندوبست موجود ہے جبکہ انہیں صحت کی بھی اچھی سہولیات دستیاب ہیں۔ جیل خانے میں ایک میدان بھی ہے، جہاں ان سے ملنے کے لئے آنے والوں کے بچے کھیلتے ہیں۔ انتہائی خطرناک نوعیت کے پچیس قیدیوں کو پینتالیس مربع فٹ کی کھولیوں میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے لئے جائے نماز، سونے کے لئے نرم گدہ اور بیت الخلاء کی سہولت دستیاب ہے۔ ‘‘
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف توقیر