برازيل کی صدر روسيف: کرپشن کے مقابلے کا عزم
28 دسمبر 2011جرمنی کی علوم سياست کی فاؤنڈيشن سے منسلک کلاؤڈيا سلا نے ڈوئچے ويلے سے باتيں کرتے ہوئے کہا: ’’برازيل کی صدر دلما روسيف نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ وہ صرف اپنے پيش رو لولا ڈے سلوا کی پاليسيوں ہی پر عمل نہيں کر رہی ہيں بلکہ خود اپنے نظريات کو بھی عملی شکل دے رہی ہيں۔ ليکن ايک اہم سوال يہ ہے کہ برازيل کی معيشت ميں ترقی کی صورتحال کيسی ہو گی۔ کيا وہ خود اعتمادی اور طاقت کا مظاہرہ کرے گی؟‘‘ کلاؤڈيا سلا کو اس ميں شک ہے کہ برازيل قرضوں کے بحران سے نمٹنے ميں يورپ کی مدد کر سکے گا۔
برازيل کے سابق صدر لُو لا ڈے سلوا کے مقابلے ميں موجودہ صدر دلما روسيف بين الاقوامی منظر پر برازيل کو نماياں کرنے کی کچھ خاص آرزومند نظر نہيں آتيں۔ ليکن انہوں نے قرضوں کے بحران پر قابو پانے کے ليے يورپ کو مدد دينے کی جو پيشکش کی ہے، اُس کے بارے ميں برازيل کی ساؤ پاؤلو يونيورسٹی کے بين الاقوامی تعلقات کے ريسرچ گروپ کے سربراہ رفائيل ولا نے کہا: ’’يورپی ممالک کو ابھی يہ پتہ نہيں ہے کہ اُنہيں مدد دينے کی پيشکش تعلقات عامہ کا پراپيگنڈہ اور عالمی منظرپرخود کو نماياں کرنے کی کوشش ہے يا برازيل واقعی مدد دينے کے قابل ہے۔‘‘
برازيل کی صدر اس عرصے ميں اب تک يہ ثابت نہيں کر سکی ہيں کہ برازيل واقعی يورپ کی مدد کر سکتا ہے۔ تاہم يہ بھی ہے کہ وہ اب تک اندرونی مسائل ميں بہت زيادہ الجھی رہی ہيں۔ اب تک اُن کی کابينہ کے سات وزراء کو مستعفی ہونا پڑا ہے۔ اُن ميں سے چھ کے استعفے کی وجہ اُن پر کرپشن اور ناجائز طور پر دولت جمع کرنے کے الزامات تھے۔
دلما روسيف کی حکومت کی خوبی يہ ہے کہ اُس نے سابق حکومتوں کے برعکس کرپشن اور بد عنوانی کے الزامات پر سنجيدگی سے توجہ دی ہے اور اُن کی باقاعدہ تحقيقات کرائی گئی ہے۔ يہی وجہ ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے ايک سال بعد دلما روسيف کو 72 فيصد برازيلی شہريوں کی حمايت حاصل ہے، جبکہ سابق صدر لولا کے حکومت سنبھالنے کے ايک سال بعد صرف 42 فيصد برازيلی اُن کے حامی تھے۔
دلما روسيف کی حکومت پچھلی حکومت کے سماجی فلاحی پروگراموں کو جاری رکھے ہوئے اور وہ دولت کی منصفانہ تقسيم کے اصول پر عمل کر رہی ہے، ليکن آئندہ بانٹنے کے ليے دولت ميں کمی ہو سکتی ہے۔
روسيف ميڈيا ميں نمائش اور بيان بازی کے بجائے خاموشی سے محنت کی عادی ہيں۔ ليکن انسٹيٹيوٹ ايتھوس نامی تنظيم کے ايک نمائندے نے کہا: ’’بہت سے منصوبوں ميں سماجی اور ماحولياتی پہلوؤں کو نظر انداز کيا جا رہا ہے اور اقتصادی نمو پر کہيں زيادہ توجہ دی جا رہی ہے، حالانکہ کسی ملک کی ترقی اور نمو صرف اقتصادی نمو ہی نہيں ہوا کرتی ہے۔‘‘
رپورٹ: ناديو پونٹيس، دوئچے ويلے برازيلی سروس / شہاب احمد صديقی
ادارت: عدنان اسحاق