برانڈ جمہوریت خطرے میں
19 جون 2019دنیا میں برانڈز کی شہرت ان کے معیارسے جڑی ہوتی ہے۔ جو برانڈ جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنا ہی معیاری تصورکیا جاتاہے۔ سیاست اور سیاسی جماعتیں بھی ایک طرح کا برانڈ ہوتی ہیں۔ لیکن ان کا معیارعوام کے بجائے طاقتورحلقوں یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات پر منحصرہوتا ہے۔ جس کے ان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں وہ اتنا ہی اہم ہے۔ جو طاقتوروں کو نہیں بھاتا، وہ اتنا ہی غیر مقبول بنا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے برانڈ کو تباہ کیا گیا۔ پھر نوازشریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن برانڈ کی باری آئی۔ آج کل مگر عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کا برانڈ اونچا ہے۔
2018ء میں عمران خان برانڈ کی حکومت اقتدار میں آئی تو اسے سب سے پہلے معیشت کے پہاڑ جیسے چیلنج کا سامنا تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں کو دس ارب ڈالر کی قسط دینا تھی۔ آپشن دو ہی تھے، اول ری شیڈولنگ اور دوسرا رقم کی ادائیگی۔ ظاہر ہے ڈیفالٹ آپشن تو نہیں تھا اس لیے ری شیڈولنگ پراتفاق کیا گیا۔
جب وزیر خزانہ اسد عمر ورلڈ بینک سے مذاکرات کررہے تھے تو بیرون ملک مقیم ایک سابق وزیراعظم نے ملک کی ایک طاقتور شخصیت کو فون کیا اور بتایا کہ ورلڈ بینک حکام وزیرخزانہ سے بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وزیرخزانہ نے چین کے بارے میں ایک ایسا بیان دے دیا ہے جس سے امریکا اور اس کے عالمی ادارے پاکستان کے بارے میں پریشان ہوگئے ہیں۔ اسد عمر نے کہا تھا کہ چین ہمیں باقی سب پر مقدم ہے۔ ایک ہدایت نامہ آیا اور اسد عمرگھر بھیج دیے گئے۔ سیاست کے میدان میں عمران خان برانڈ کے لیے یہ سب کسی بڑے دھچکے سے کم نہ تھا۔
اسد عمر وزیراعظم کے بعد اہم وزراء کی سرخیل تھے۔ ان کے بعد اہم وزراء بھی اپنی اپنی پریشانیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ پرویزخٹک وزارت کے معاملے اور نیب کیس میں پہلے سے پریشان تھے، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو ایوان وزیراعظم میں شک کی نظر سے دیکھا جاتا اور ان کا دوسرا مسئلہ جہانگیر ترین سے ضد بھی رہا۔
صرف یہی نہیں کابینہ میں تبادلے ہوئے تو عمران خان کے قریب تصور کیے جانے والے کم وبیش تمام وزراء کے محکمے بدل دیے گئے۔ ان میں سب سے اہم فواد چوہدری اور شہریارآفریدی تھے۔ جب کابینہ کی اہم وزارتیں غیر منتخب یا کسی اور کے نامزد کردہ لوگوں کے پاس چلی گئیں تو ان وزارتوں کا کنڑول بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ برانڈ عمران خان کے لیے یہ دھچکا اس لیے بھی اہم تھا کہ ان کے تمام قریبی لوگ ایک جھٹکے میں باہر ہوچکے تھے۔ اس وقت کابینہ کے اکثر لوگ ناراض ہیں، وجہ وزیراعظم کے گرد موجود تین افراد ہیں جوعملی طورپر سول حکومت چلا رہے ہیں۔ ایک خاتون، ایک غیر منتخب وزیر اور ایک سرکاری افسر۔ یہ وہ تین شخصیات ہیں جن کا طواف وفاقی کابینہ کے کم و بیش تمام اراکین اوربیوروکریسی پرلازم ہے۔ ہاں وفاقی وزیر مراد سید بدستور عمران خان کے چہیتے ہیں۔ ان سے عمران خان کے سامنے وہ سچ بولنے کی توقع کی جاسکتی ہے جوشاید ان کے مصاحبین بھی نہ بولیں۔ مگران کو بھی عمران خان سے دور کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ یعنی برانڈ عمران خان کو ایوان اقتدار کے اندر ہی تنہا اور ناکام بنانے کا کام جاری ہے۔
دوسری طرف بے تحاشا مہنگائی کے باعث صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ برانڈ عمران خان بتدریج غیر معروف ہورہا ہے لیکن بعض لوگوں کا اعتبار اب بھی قائم ہے۔ اگرعام لوگوں سے پوچھیں تو وہ مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن پھر خود کو یہ تسلی دیتے ہیں کہ شاید معیشت کا مسئلہ حل ہو ہی جائے۔ ایسا جلد ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ خدشہ ہے کہ کہیں لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہو جائے۔
اس پس منظر میں ایک طرف عمران خان برانڈ کی حکومت چل رہی ہے تو دوسری طرف نیب اور اس کے سرپرستوں کی متوازی حکومت موجود ہے۔ نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری کو دس جون کو گرفتار کیا اور پھر بعد میں فریال تالپور کو بھی گھر پر نظربند کردیا گیا۔
یوں تو آصف زرداری گرفتار ہیں مگر ان کو تمام سہولتیں بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ ریمانڈ کے دوران ان کی اپنی اولاد سے ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ انہیں رام کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ مگر شاید آصف علی زرداری کے دل میں پچھتاوا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کاش چیئرمین سینٹ کے معاملے پر وہ غیر جمہوری اقدام کی غلطی نہ کرتے اور اٹھ کھڑے ہوتے۔ انہوں نے آج جوموقف اپنایا ہے وہ گزرے سالوں میں اپنا لیتے تو شاید اتنی بدنامی اور تکلیف نہ اٹھانا پڑتی۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور بالکل بے قصور ہیں۔ کچھ غلطیاں تو ان سے بھی ہوئی ہیں۔
آصف زرداری کو عدالتوں سے ریلیف ملے یا نہ ملے۔ پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے سروں پر بھی گرفتاری کی تلواریں لٹک رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نظروں میں کھٹک رہے ہیں۔ شواہد بتاتے ہیں آج نہیں تو کل یہ سب اندر ہوں گے۔
شاید زرداری کی ضمانت پر رہائی تک پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما بچے رہیں۔ مگر پھر ان کا نمبر ضرور آئے گا۔ اصل ڈر تو وزیراعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کا ہے۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک صوبے کے منتخب وزیراعلیٰ کو اندر بھیج کر کیا حاصل کیا جانا ہے؟ کیا یہ صوبائیت کو ہوا دینے کے مترداف نہیں ہوگا ؟ ایسی کسی کارروائی سے برانڈ عمران خان پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ ملکی معیشت کی کمزوری گرفتار کیے جانے والوں کو ہیرو بنائے گی۔
ادھر پنجاب میں نوازشریف جیل میں بیٹھے ہیں اور مریم نواز بھی جلسوں سے خطاب کر کے برانڈ عمران خان پر ہی تنقید کر رہی ہیں۔ یعنی اپوزیشن مل کر برانڈ عمران خان کو ٹارگٹ کر رہی ہے نہ کہ کسی اور کو۔ اگر غور کیا جائے تو فی الحال اپوزیشن جماعتوں کے تمام برانڈ وقتی طور پر غیر اہم ہو چکے ہیں۔ مگر یہ سب مل کر برانڈ عمران خان کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو اس وقت غیر مقبول ہوتا جارہا ہے لیکن اپوزیشن سے محاذ آرائی پر بضد بھی ہے۔
اگر یہ لڑائی جاری رہی اور معیشت اور گورننس کے شعبوں میں کارکردگی صفر رہی تو برانڈ عمران خان ہی نہیں بلکہ برانڈ جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔