برسلز میں بین المذاہب امن مارچ اور مشترکہ اعلامیہ
8 مئی 2019امن مارچ سے قبل، یورپی پریس کلب میں ہونے والی تقریب سے یورپیئن جیوئش کمیونٹی سنڈر، ایگزیکیٹو مسلم آف یورپ، چیپل فار یورپ اور بدھسٹ یونین کے نمائندوں کے علاوہ یورپی یونین میں نیوزی لینڈ کے سفیر، سری لنکا کے سفیر اور یورپ میں اسلامی تعاون تنظیم کی مستقل مندوب نے خطاب کیا۔ امن مارچ میں انسانی حقوق کے کارکنوں، امن پرستوں، طالب علموں اور خواتین نے بھر پور شرکت کی اور اسے ایک عالمی تحریک کا آغاز قرار دیا۔ شرکا کا کہنا تھا کہ وہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو غیر مبہم پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام امن پرست اور انسانیت نواز متحد ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی کا مشترکہ اعلامیہ
مشترکہ اعلامیہ میں خدا کے نام پر نفرت پھیلانے اور تشدد کا بازار گرم کرنے والوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق، ’’ہم مذہبی انتہا پسندوں اور منافرت پرستوں کی جانب سے نیوزی لینڈ کی مساجد، سری لنکا کے گرجا گھروں اور امریکا میں یہودی عبادت گاہ پر کیے جانے والے اندھے تشدد کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے جمہوری انتخابات اور یورپی یونین کے لیے جاری انتخابی مہم میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ سستی شہرت اور سیاسی فائدے کے لیے منافرت انگیزی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے ایک مثبت، ترقی پسند، روادار اور متنوع معاشرے کے اجتماعی آدرش کو مسترد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہم ان اقدار کے دفاع کا عہد کرتے ہیں۔‘‘
اجتماعی عمل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے، ’’یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ ہم انتہا پسندی کے حوالے سے اپنی برادریوں اور قوموں میں شعور پھیلائیں اور واضح طور پر اعلان کریں کہ ہم، یہودی، مسیحی، مسلم اور دیگر مذاہب کے پیروکار متحد ہیں اور مل کر ایک دوسرے کی مذہبی آزادیوں کا دفاع کریں گے۔ ہم امن، مذہبی و ثقافتی تنوع اور بنیادی حقوق کے لیے متحد ہیں۔‘‘
غم ذدہ لیکن پرعزم
یہودی کمیونٹی سینٹر کے سربراہ، ربی آوی تاواری کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم ایک دوسرے کے عقیدے کے حق کا دفاع کریں گے اور جو کچھ بھی ہو جائے، ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور ہمیشہ متحد رہیں گے۔‘‘ چیپل آف یورپ کے فادر کرسچئین سووا کے مطابق، ’’ہم یہاں با آواز بلند یہ کہنے آئے ہیں کہ مذہبی آزادیوں کے دفاع کے لیے ہم سب متحد ہیں۔‘‘
ایگزیکٹو مسلم بیلجئیم کے لاہیم حاموچ کا کہنا تھا، ’’نیوزی لینڈ کی مساجد، سری لنکا کے گرجا گھر یا امریکا کی یہودی عبادت گاہ پر حملے کرنے والے ایک ہی تھے اور ان کے خلاف ہم سب کو بھی ایک ہی ہونا ہو گا۔‘‘ انہوں نے ایک منصوبے کا ذکر کیا، جس کے تحت مستقبل میں مساجد کے اماموں کی خصوصی تربیت کی جائے گی۔
یورپی یونین میں نیوزی لینڈ کے سفیر، ڈیوڈ ٹیلر نے کہا کہ محبت، رواداری، اشتراک اور تعاون کی قوت اس نفرت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، جو نیوزی لینڈ، سری لنکا اور امریکا میں دیکھنے میں آئی۔ انہوں نے کہا،’’ہماری قوم صدمے کی حالت میں ہے لیکن متحد ہے۔ ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ انٹرنیٹ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا گیا۔ ہم فرانس کے ساتھ مل کر چنیدہ عالمی راہنماؤں کا اجلاس بلا رہے ہیں، جس میں بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کو بھی دعوت دی جائے گی کہ سب مل کر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کی روک تھام کریں۔‘‘‘
سری لنکا کے وزیر، روڈنے پریرا کا کہنا تھا کہ سری لنکا ایک کثیر المذہبی اور کثیرالثقافتی ملک ہے جہاں اسلام، مسیحیت، ہندو مت اور بدھ مت اجتماعی معاشرت کا ناگزیر حصہ ہیں،’’ہم صدمہ کی کیفیت میں ہیں، شدید غم ذدہ ہیں لیکن پرعزم ہیں۔ ہم ان بزدل دہشت گردوں کو شکست دیں گے اور اپنے معاشرے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
نوجوان نسل کو شدت پسندی سے بچایا جائے
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے بدھسٹ یونین کے صدر کارلو لوکس نے کہا کہ تمام مذاہب امن و آشتی کا پرچار کرتے ہیں اور ان کے پیروکار بھی امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ایک دوسرے کو برداشت کرنا اچھی بات ہے لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے لیے محبت، شفقت اور سخاوت کا رویہ اپنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے بھی نفرت کی بجائے ہمدردی کرنی چاہیے جو دوسروں کے ہاتھوں میں استعمال ہو کر اپنی روحوں پر اتنا بوچھ ڈال رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کی مستقل مندوب عصمت جہاں کا کہنا تھا کہ وہ 56 ممالک کی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتی ہیں،’’ ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب یا نسل نہیں ہوتی۔‘‘ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے انہوں نے کہا، ’’سب سے اہم بات یہ ہے کہ نصاب تعلیم کے ذریعے امن و آشتی اور بھائی چارہ کا پیغام پھیلایا جائے۔ بچے انسانیت کا مستقبل ہیں اور ہمیں اپنے بچوں کو مذہبی انتہا پسندی سے بچانا ہو گا۔‘‘
امن مارچ کے اختتام پر شرکا نے شمعیں جلائیں اور دنیا میں امن اور بھائی چارہ کے لیے دعائیں مانگیں۔