برسلز میں مہاجرین سے یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر
برسلز نارتھ اسٹیشن پر ہزاروں مقامی افراد نے حکومت کی جانب سے مہاجرین کے خلاف کارروائی پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر تارکین وطن سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کی تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں ملاحظہ کیجیے۔
آخر کہاں جائیں
میر واعظ کا تعلق افغانستان سے ہے اور گزشتہ چار سال سے اس کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہؤا۔ واعظ کا کہنا ہے کہ افغانستان شورش زدہ علاقہ ہے اور وہ واپس افغانستان نہیں جانا چاہتا۔ میر واعظ کو خوف ہے کہ اسے ملک بدر کر دیا جائے گا۔
رحم کی درخواست
لیبیا کے ایک تارک وطن سمی کا کہنا ہے کہ بیلجئیم کی حکومت اُس پر رحم کرے وہ خود بیلجئیم سے برطانیہ چلا جائے گا۔
خوفزدہ لیکن پُرامید
لیبیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی یہ دونوں تارکین وطن اگرچہ اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند بھی ہیں اور کیمرے کے سامنے بات کرنے سے خائف بھی، تاہم مسکراتے ہوئے اس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔
بچے بھی احتجاج میں شامل
مظاہرے میں بچوں کو ساتھ لانا ضروری تھا تاکہ وہ انسانیت کی مدد اور مجبور افراد کا ساتھ دینا سیکھ سکیں۔
مہاجرین کے خلاف کارروائی
مہاجرین کے خلاف کارروائی کے اوّلین مرحلے میں چھ سو تارکین وطن کو اسٹیشن اور اس کے اطراف سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ان مہاجرین کا تعلق زیادہ تر شام، عراق، لیبیا، سوڈان اور افغانستان سے ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہیں جینوا کنونشن کے تحٹ پناہ اور ملازمت فراہم کی جائے۔
تضحیک نہ کریں
بیلجیم کے شہریوں نے مطالبہ کیا کہ مجبور، اور جنگوں کے ستائے ہوئے مہاجرین کو تحفظ فراہم کیا جائے نہ کہ پولیس کارروائی کے ذریعے ان کی تضحیک کی جائے۔
معاہدہ طے پا گیا
گزشتہ ایک سال سے بیلجیم کے وزیر داخلہ جان جمبو اور سیکریٹری برائے مہاجرت و پناہ فرانکن ان مہاجرین کے خلاف کاروائی کے خواہاں تھے۔ اب مقامی بلدیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پانے کے بعد وفاقی پولیس نے مہاجرین کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا ھے۔
جامعات کے طلبا بھی سراپا احتجاج
مظاہرے میں ہزاروں افراد اپنے بچوں کے ساتھ شریک ہوئے۔ جامعات کے طلبا اور طالبات نے بھی بڑی تعداد میں اس مظاہرے میں شرکت کی۔ اس تصویر میں ایک بچی کو مہاجرین کی تصویر بناتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔