1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی وزیر اعظم کا دوسرا دورہء افغانستان

7 دسمبر 2010

ڈیوڈ کیمرون نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد دوسری مرتبہ جنگ زدہ افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ افغانستان میں دس ہزار کے قریب برطانوی فوجی موجود ہیں۔ یہ تعداد امریکی فوجیوں کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/QRSb
ڈیوڈ کیمرون: فائل فوٹوتصویر: AP

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس دورے میں ان کے ہمراہ چیف آف ڈیفنس سٹاف سر ڈیوڈ رچرڈز بھی موجود ہیں۔ سر ڈیوڈ رچرڈز گزشتہ ہفتوں میں کہہ چکے ہیں کہ اگلے سال افغانستان سے برطانوی فوج کی واپسی موجودہ حالات کے تناظر میں بظاہر انتہائی مشکل دکھائی دیتی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم نے صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد افغان صدر کے ہمراہ کیمرون ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شریک ہوئے۔ اس نیوز کانفرنس میں کیمرون کا کہنا تھا کہ افغان جنگ میں اگلے سال ناقابل یقین پیش رفت ہونے کا قوی امکان ہے۔ انہوں نے رواں سال کے دوران میدان جنگ میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں کا بھی محتاط انداز میں ذکر کیا۔ ان کی مجموعی گفتگو میں امید کا احساس جھلک رہا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں مطمئن ہو کر بیٹھ جانا کسی طور بھی مناسب نہیں ہوگا۔ پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں ایک نئی حکمت عملی کو استعمال کیا جا رہا ہے اور اس نئی حکمت عملی کے مثبت اثرات نمودار ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

حامد کرزئی اور ڈیوڈ کیمرون کی پریس کانفرنس میں وکی لیکس کے ذریعے منظر عام پر آنے والے خفیہ کیبل پیغامات کی بازگش بھی سنائی دی۔ وکی لیکس کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں افغان صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ برطانیہ شروع دن سے افغانستان اور افغان عوام کا ایک مضبوط حمایتی ہے۔

ISAF Britische Soldaten patroulieren zusammen mit afghanischen Soldaten durch Kabul, Afghanistan
افغانستان میں برطانوی فوجیتصویر: AP

انگریز وزیر اعظم نے پریس کانفرنس میں نیٹو کانفرنس کے حوالے سے ایک بار پھر واضح کیا کہ اگلے سال سے افغانستان میں متعین غیر ملکی فوجوں کی واپسی کا عمل یقینی طور پر شروع ہو جائے گا اور فوجوں کا مکمل انخلا سن 2014 تک مکمل ہو جائے گا۔ کیمرون نے یہ بھی کہا کہ افغان صدر نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے کہ عبوری دور میں امن و سلامتی کے لئے ممکنہ انتظامی معاملات کا حصول ممکن ہے۔

کابل منعقدہ پریس کانفرنس میں افغان صدر اور برطانوی وزیر اعظم کو جنوبی افغان صوبے ہلمند کی سکیورٹی صورت حال پر بھی بہت سارے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کیمرون کے مطابق ماضی میں ہلمند صوبے میں سکیورٹی کے خراب ہونے کی وجہ کم فوجیوں کی تعیناتی تھی۔ کیمرون کے خیال میں شورش سے بھرے اس صوبے میں اب امن و سلامتی کی فضا پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔برطانوی وزیر اعظم نے ہلمند کے گورنر گلاب مینگل سے بھی منگل کو ملاقات کی اور دوطرفہ امور پر بات چیت کی۔ وکی لیکس کی جانب سے جاری ہونے والی خفیہ سفارتی پیغامات کے مطابق گلاب مینگل برطانوی فوجوں کے کڑے ناقد ہیں۔

افغانستان میں انتہاپسند طالبان کے خلاف نو سالہ جنگ میں ساڑھے تین سو برطانوی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلمند میں 20 ہزار امریکی فوجیوں کے ہمراہ برطانوی فوجی تعینات ہیں۔ ہلمند صوبے میں پوپی کی کاشت کی وجہ سے اسے طالبان کا منشیات کا مرکز بھی قرار دیا جاتا ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں