برطانیہ: انتخابی مہم میں کیمرون کی برتری
30 اپریل 2010عوامی جائزوں کے مطابق اس نشریاتی مباحثےکےبعد کیمرون نے37 فیصد عوامی حمایت حاصل کی۔ لیبر پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم گورڈن براؤن نے 25.6 فیصد جبکہ لیبر ڈیموکریٹ رہنما نک کلیگ ، 32 فیصد حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
جمعرات کی رات ہوئے اس مباحثے کا موضوع معیشت اور اقتصادی پالیسیوں سے متعلق تھا۔ اس دوران تینوں رہنماؤں نے ملکی اور بین الاقوامی اقتصادی پالیسیوں کے بارے میں اپنے اپنے نظریات عوام کے سامنے رکھے۔ برطانوی عوام کے مطابق 43 سالہ کیمرون نے اس مباحثے کے دوران عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔
کیمرون نے کہا کہ وہ تمام عوام کے لئے مساوی خدمات مہیا کرنے کے حق میں ہیں۔ کیمرون نے مباحثے کے دوران کہا کہ وہ بینکوں اور مالیاتی اداروں پر نئے محصولات عائد کرکے انہیں اس قابل بنائیں گے وہ دوبارہ عوام کو قرض دینے کے قابل ہوسکیں۔ یونان کے مالیاتی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے برطانوی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی یورو کرنسی رائج نہیں کریں گے اور پاؤنڈ کو ہی برطانیہ کی کرنسی رکھیں گے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ چین سے سامان کی برآمد پر انحصار ختم کرنا ہوگا اور ملک کے اندر پیداوار کو فروغ دیناہوگا۔
اس بحث کےبعد قدامت پسند رہنما کیمرون نےکہا کہ برطانوی رہنماؤں کو ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ ملک ایک مثبت تبدیلی کے لئے کراہ رہا ہے۔
عوامی جائزوں کے مطابق اس مباحثے میں دوسرے نمبر پر آنے والے 43 سالہ نک کلیگ بہت پر اعتماد نظر آئے۔ نک نے کہا کہ برطانوی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ غیر ذمہ دار بینک عوامی بچت اور تجارت کو دوبارہ کبھی بھی خطرے میں نہ ڈال سکیں۔
ان نشریاتی مباحثوں کی بدولت نک کلیگ کی عوامی مقبولیت میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان انتخابات میں لبرل ڈیموکریٹ حکومت سازی میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
جمعرات کے مباحثے میں وزیر اعظم گورڈن براؤن ایک مرتبہ پھر عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔انسٹھ سالہ براؤن نے دعویٰ کیا کہ ان کی پارٹی ہی ملک میں اقتصادی صورتحال بہتر بنا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا ، وہ یہ جانتے ہیں کہ ملک کی معیشت کو کس طرح چلانا ہے، وہ چاہے اچھے حالات ہوں یا برے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر ملک کی معیشت میں سکڑی تواس سے ملازمتوں کے مواقع ختم ہو جائیں گے اور یہ وہی غلطی ہو گی، جو سن1930ء میں کی گئی تھی۔
برطانیہ کے موجودہ سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ ایک ’معلق پارلیمان‘ وجود میں آئے گی جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔
اگرچہ اس مباحثہ کا موضوع معیشت تھا لیکن کوئی بھی پارٹی ملک کےتاریخی بجٹ خسارے سے نمٹنے کے مسئلے پر کوئی ٹھوس پالیسی بیان کرنے میں ناکام رہی ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس مرتبہ برطانیہ میں ’معلق پارلیمان‘ وجود میں آتی ہے تو اس سے بجٹ خسارے کے مسئلےکا حل تلاش کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: امجد علی