برطانیہ میں مخلوط حکومت سازی اور سیاسی ترجیحات
12 مئی 2010برطانيہ ميں 13 سال بعد ليبر پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔ کنزرويٹو پارٹی گزشتہ پانچ دنوں ميں مخلوط حکومت بنانے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد آخر ميں لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے ساتھھ مل کر حکومت بنانے ميں کامياب ہو ہی گئی۔ اس سے پہلے، انتخابات ميں ہارنے والی ليبر پارٹی کے قائد گورڈن براؤن نے بھی لبرل ڈيموکريٹس کی مدد سے اپنی حکومت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی، ليکن کل سہ پہر اُن کی آخری سعی بھی ناکام ہوگئی جس کے بعد گورڈن براؤن نے وزيراعظم اور ليبر پارٹی کے سربراہ کےعہدوں سے استعفی دے ديا۔
قدامت پسند پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے کل شام کہا کہ بجٹ کے بھاری خسارے اور سماجی مسائل کی وجہ سے برطانيہ کو بڑے چيلنجوں کا سامنا ہے:'' اس لئے ميں کنزرويٹو اور لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کی ايک مضبوط مخلوط حکومت بنانا چاہتا ہوں۔ نک کليگ اورميں، پارٹی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے مفاد عامہ پر توجہ دينا چاہتے ہيں۔''
اگرچہ لبرل ڈيموکريٹک پارٹی اورکنزرويٹو پارٹی کے سياسی نظريات ايک دوسرے سے بہت مختلف ہيں، ليکن اس کے باوجود لبرل ڈيموکريٹس، کنزرويٹو پارٹی کے ساتھھ مل کرحکومت تشکيل دينے پر تيار ہو گئے ہيں۔ ابھی يہ واضح نہيں ہے کہ لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے قائد نک کليگ نے اس کے بدلے ميں کنزرويٹو پارٹی سے کيا رعايتيں حاصل کی ہيں۔
لبرل ڈيموکريٹک پارٹی، مخلوط حکومت کی چھوٹی جماعت ہے اورجرمنی کے برعکس برطانيہ ميں مخلوط حکومت کی چھوٹی جماعت کو حکومت ميں بڑی وزارتيں نہيں دی جاتيں۔
برطانيہ کی نئی حکومت ميں وزيرماليات کنزرويٹو پارٹی کے جارج آسبورن ہيں جو نئے وزيراعظم ڈيوڈ کيمرون کے ايک سياسی رفيق ہيں۔ وزارت خارجہ وليم ہيگ کو سونپی گئی ہے جو کنزرويٹو پارٹی کے، يورپی يونين کی مخالفت کرنے والے بازو سے تعلق رکھتے ہيں۔ اس وجہ سے آئندہ يورپی يونين ميں مذاکرات کا سلسلہ مشکل ہوجائے گا۔
لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے قائد نک کليگ نائب وزيراعظم ہوں گے، ليکن اس عہدے کے ذريعے اُنہيں نہ تو طاقت حاصل ہوگی اور نہ ہی کوئی اہم ذمہ دارياں سونپی جائيں گی۔
نئے برطانوی وزيراعظم ڈيوڈ کيمرون نے اپنے پہلے بيان ميں ان مشکل حالات کا ذکر کيا جس کا ملک کو سامنا ہے: ''ميری حکومت بڑے چيلنجوں کا مقابلہ کرے گی۔ مشکل فيصلے کئے جائيں گے،عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے گا اور ہم مل جل کر حالات کو بہتر بنا سکيں گے۔''
کيمرون کی مراد خاص طور پر اقتصادی چيلنج سے ہے کيونکہ برطانيہ کے بجٹ کا خسارہ بہت زيادہ ہے۔ حکومت ميں اُن کی ساتھی جماعت لبرل ڈيموکريٹک پارٹی، بچت کی کچھ زيادہ حامی نہيں ہے ، ليکن يہاں 190 ارب يورو اور 12 فيصد نئے قرضوں کی ادائيگی کا معاملہ ہے اور انتخابات سے پہلے ہی عوام ميں بددلی پھيلی ہوئی تھی۔
نئی حکومت ميں شامل جماعتوں ميں اس پر اتفاق ہو گيا ہے کہ مزيد قومی اختيارات کی يورپی يونين کو منتقلی سے پہلے ريفرنڈم کے ذريعے عوام سے ان کی منظوری لی جائے گی۔ اس کے علاوہ اميگريشن پر بھی بندشيں لگائی جائيں گی۔ نائب وزيراعظم نک کليگ نے کہا کہ ٹيکس کا زيادہ منصفانہ نظام قائم کيا جائے گا اور بينکاری نظام ميں بھی تبديلياں لائی جائيں گی۔
رپورٹ: باربرا ويزل / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف بلوچ