برلن میں دنیا بھر کی ثقافتوں کا رنگا رنگ کارنیوال
جرمن دارالحکومت برلن میں ثقافتوں کا کارنیوال منائے جانے کی روایت ٹھیک بیس برس قبل 1996ء میں شروع ہوئی تھی۔ تب منتظمین اور شرکاء کا مقصد نسل پرستی کے خلاف مارچ کرنا تھا۔ آج کل اس میں رواداری کا علم بلند کیا جاتا ہے۔
ثقافت کی حدود لامحدود
برلن میں تقریباً دو سو مختلف ممالک سے آئے ہوئے شہری بستے ہیں۔ اس تصویر میں زامبا رقص کا مظاہرہ کرنے والی برازیل کی ایک فنکارہ کو ترکی کی روایتی ٹوپی پہنے ایک بزرگ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے اور اس طرح کے ہنگامہ خیز مناظر اسی کارنیوال میں نظر آ سکتے ہیں۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
اس کارنیوال میں رنگ و نسل کی تمام حدود ختم ہو جاتی ہیں اور لوگ کسی قسم کے خوف کےبغیر مل جُل کر رقص و موسیقی کے ہنگامے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ثقافتوں کے اس کارنیوال میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک کثیرالثقافتی معاشرے میں لوگ کس طرح رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل جُل کر رہا کریں گے۔
اژدہے اور خواتین
برلن میں تیس ہزار چینی بستے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے برلن کی روزمرہ زندگی پر ان چینیوں کی بھی گہری چھاپ ہے۔ ثقافتوں کے کارنیوال میں چینی شہری بھی اپنے مخصوص انداز میں حصہ لیتے ہیں، جیسے کہ یہ چینی خواتین اژدہوں کے ساتھ ایک مخصوص چینی رقص پیش کر رہی ہیں۔
مقامی اور عالمی رنگ ساتھ ساتھ
اس تصویر میں رقص کرنے والا شخص، جس نے پروں والا ہَیٹ پہن رکھا ہے، کسی بہت ہی دور کی اجنبی دنیا کا باسی معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت وہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک کے باسیوں کے سامنے اپنی مخصوص ثقافتی روایات پیش کر رہا ہے۔ یہ رقاص اس حقیقت کا عکاس ہے کہ مقامی روایات وقت کے ساتھ ساتھ عالمی روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔
جنوں کے عالم میں
جلوس کے سبھی شرکاء گاتے بجاتے ہیں، مقصد ہوتا ہے خوب شور اور ہنگامہ کرنا۔ اس کارنیوال کی ایک پختہ روایت اس طرح کے کاغذی بِگل یا سِیٹیاں ہیں، جنہیں زور زور سے بجایا جاتا ہے۔ ان کا شور اس جلوس میں بولے جانے والے الفاظ پر غالب آ جاتا ہے اور ابلاغ کا بنیادی ذریعہ بن جاتا ہے۔ چند لمحوں کے لیے الفاظ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔ ویسے بھی کارنیوال میں الفاظ کے بغیر بھی لوگ ایک دوسرے کی بات سمجھ لیا کرتے ہیں۔
گرمی بھی، خوبصورتی بھی
المونیم کی چادریں عموماً کسی حادثے کے متاثرین کو دی جاتی ہیں، مثلاً جب بحیرہٴ روم میں کشتیوں کے ذریعے آنے والے مہاجرین کو بچایا جاتا ہے تو اُنہیں سردی سے بچنے کے لیے اسی طرح کی چادریں دی جاتی ہیں۔ آیا ان رقاصاؤں نے یہ چادریں سردی سے بچنے کے لیے اوڑھ رکھی ہیں یا محض خوبصورت نظر آنے کے لیے ، یہ بات واضح نہیں ہے لیکن کیا فرق پڑتا ہے، کارنیوال کے ہنگامے میں اس طرح کی باتوں پر کوئی کم ہی غور کرتا ہے۔
رقص ہو گا، موسم چاہے جیسا بھی ہو
یورپ میں عام طور پر کارنیوال سردیوں ہی میں آتا ہے۔ اس بار ثقافتوں کے کارنیوال کے دوران بھی موسم سرد ہی تھا لیکن یہ رقاصہ سرد موسم سے بھی گھبرائی نہیں۔ اُس نے پلاسٹک کی ایک شِیٹ سے اپنا جسم ڈھانپ رکھا ہے۔ آیا وہ اس طرح اپنی کم لباسی کو چھپُانا چاہتی ہے یا نمایاں کرنا چاہتی ہے، یہ فیصلہ دیکھنے والی نظر پر ہے۔
کھانے میں بھی اپنی مخصوص روایت
ثقافتوں کے کارنیوال میں شریک یہ چینی شہری اپنے مخصوص انداز میں اسٹکس کی مدد سے کھا رہے ہیں۔ اس طرح دو اسٹکس کی مدد سے کھانا کھانا کم از کم یورپ کے شہریوں کے لیے تو ہرگز آسان نہیں ہے لیکن چینیوں کے لیے اس طرح سے کھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے، خواہ انہوں نے مخصوص ملبوسات پہن رکھے ہوں اور خواہ انہیں کھڑے کھڑے کھانا پڑ رہا ہو۔
ٹانگ اوپر !
رنگا رنگ ملبوسات پہنے یہ نوجوان بھی اپنے مخصوص انداز میں اعضاء کی شاعری کرتا اس جلوس میں شریک ہے۔ اس طرح سے ٹانگ اوپر اٹھانا رقص کا بھی کوئی انداز ہو سکتا ہے اور ورزش کا بھی اور یہ کسی فوجی پریڈ کی نقل بھی ہو سکتی ہے۔ اس کارنیوال کے شرکاء کا بنیادی مقصد کھیلنا کُودنا اور تفریح حاصل کرنا ہے، دیکھنے والے چاہے جو مرضی سمجھیں۔
افریقی رنگ اور ڈھول کی تھاپ
پیلا، سبز اور سرخ، افریقی اتحاد کے علامتی رنگ۔ افریقہ کے مختلف خطّوں سے آئے ہوئے ان شہریوں کو بھی یہاں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملتا ہے اور یوں نئے روابط جنم لیتے ہیں۔ برلن دنیا کے ہر خطّے کے باسیوں کو امن کے ساتھ مل جُل کر رہنے کے مواقع مہیا کرتا ہے، چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔