1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں نومولود مسلمان لڑکوں کا مقبول ترین نام ’محمد‘

7 مئی 2019

گزشتہ ہفتے جرمنی کی ایک تنظیم ’سوسائٹی فار دی جرمن لینگوئج‘ نے جرمنی میں نومولود بچوں کے مقبول ترین ناموں کی ایک فہرست شائع کی۔ اس فہرست نے برلن میں کافی ہل چل مچا دی۔

https://p.dw.com/p/3I4Iy
BdTD Ramadan in Indonesien
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Sanovri

اس فہرست کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں نومولود لڑکیوں کا مقبول نام میری اور لڑکوں کامقبول ترین نام پال رہا۔ تاہم اس فہرست کے اجراء کے فوری بعد اس پر بحث شروع ہو گئی اور اسے ایک سیاسی موضوع بنانے کی کوشش کی جانے لگی۔ وجہ یہ رہی کہ 2018ء میں برلن میں پیدا ہونے والے بائیس ہزار لڑکوں میں سے 280  بچوں کا پہلا نام ’محمد‘ رکھا گیا تھا۔

برلن کے اخبار ’ٹاگیس اشپیگل‘ نے اپنی ایک  رپورٹ میں لکھا، ’’محمد، کارل ہائنز سے زیادہ مقبول نام ہے۔‘‘ اسی طرح برطانوی اخبار ’دی ڈیلی میل‘ نے سیاق و سباق کا حوالہ دیے بغیر لکھا، ’’لڑکوں کے پہلے نام کے طور پر محمد جرمنی کی سولہ میں سے چھ وفاقی ریاستوں میں سب سے مقبول نام رہا۔‘‘

ایلس وائیڈل جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف سیاسی جماعت اے ایف ڈی کی شریک رہنما ہیں۔ انہوں نے اس فہرست سے متعلق جرمن اخبار ’بلڈ‘ کی ایک رپورٹ کو ٹوئٹر پرشیئر کرتے ہوئے لکھا، ’’گزشتہ سال برلن میں نومولود لڑکوں کا مقبول ترین نام محمد رہا، اب یہ ٹرینڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔‘‘

دوسری طرف بائیں باز وکی طرف جھکاؤ رکھنے والی جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی برلن میں ایک مقامی عہدیدار اور فلسطینی نژاد جرمن شہری سوسن شبلی نے اے ایف ڈی کی ایلس وائیڈل کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا، ’’میرے والد کا نام محمد تھا، میرا نام سوسن محمد شبلی ہے، میرے بھتیجے کا نام محمد ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ایک نام کے طور پر محمد کبھی ختم نہ ہو۔‘‘

اے ایف ڈی کا مسلم مہاجرین کے خلاف پوسٹر ’گلے کی ہڈی‘ بن گیا

اسلامی پردے پر جرمن کانفرنس تنازعات کا شکار

سوسائٹی فار دی جرمن لینگوئج کے مطابق اگر عام شہریوں کے مکمل ناموں کے سروے کے نتائج کو دیکھا جائے، تو ’محمد‘ جرمنی میں چوبیسواں مقبول ترین نام بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس تنظیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اسے اپنی ریسرچ میں صرف پہلے ناموں اور مکمل ناموں کی الگ الگ فہرستیں بنانا چاہییں تھیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک عام سے سروے کے بعد شروع ہونے والی یہ بحث ثابت کرتی ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں اور مہاجرین سے متعلق معاملات کو کسی طرح سیاسی مقاصد اور بحث کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ب ج/ م م