برلن کے نواح میں امریکی فوجی سرگرمیوں پر جرمنوں کا احتجاج
31 مئی 2018جرمنی کے مشرقی حصے کی ریاست برانڈن برگ سے 102 فوجی قافلوں میں شامل قریب 2050 ملٹری کی بھاری گاڑیاں پولینڈ کی جانب روانہ ہیں۔ اس عسکری نقل و حمل سے وسط جون تک شاہراؤں پر سویلین گاڑیوں کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔ رواں ہفتے کے دوران اس امریکی فوجی موومنٹ کے خلاف ایک علامتی احتجاج کیا گیا۔
اس احتجاجی مظاہرے کا انتظام بائیں بازو کی بڑی سیاسی جماعت نے کیا۔ احتجاج کو جرمن کمیونسٹ پارٹی (DKP) کا تعاون بھی حاصل تھا۔ یہ علامتی احتجاج برُؤک کے قصبے کے قریب کیا گیا، جہاں جرمن فوجی بیرکیں ہیں اور اُن میں اپنی منزل کی جانب بڑھتے امریکی فوجی قافلے نے ایک رات کے لیے قیام کیا۔
برانڈن بُرگ کے قصبے برُؤک میں کیے جانے والے احتجاج میں ایک ریاستی خاتون وزیر ڈیانا گولٹسے بھی امن کے حامی کارکنوں اور کمیونسٹ نوازوں کے ساتھ شریک تھیں۔ جرمن وفاقی ریاست برانڈن برگ کے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ڈیٹمار وائڈکے کا کہنا ہے کہ جرمن سرحد کے دونوں جانب ٹینکوں کی موومنٹ یقینی طور پر باعث اطمینان نہیں ہو سکتی۔
امریکی فوج کی یہ وسیع تر نقل و حرکت مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اُس آپریشن کا حصہ ہے، جس کا مقصد اتحاد کی مشرقی یورپی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہے۔ اس کو ’آپریشن ریزالوو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ بظاہر نیٹو کے اس آپریشن کے تحت کی جانے والی عسکری مشق کا مقصد پوری طرح عیاں نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ’آپریشن ریزالوو‘ حقیقت میں مغربی دفاعی اتحاد کا وہ سیاسی پیغام ہے کہ وہ مشرقی یورپ کی چھوٹی ریاستوں کے دفاع کے لیے تیار ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس یورپی خطے میں روس پہلے ہی اپنی فوج مختلف ملکوں کی سرحدوں کے قریب جمع کیے ہوئے ہے۔
دفاعی تجزیہ کاروں نے نیٹو کی اِس فوجی کارروائی کو روس کی جانب سے سن 2014 میں یوکرائنی علاقے کریمیا کا اپنی جغرافیائی حدود میں انضمام کرنے کا براہ راست جواب بھی قرار دیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جرمنی کے مشرقی حصے میں بعض لوگ امریکی فوجی موجودگی پر شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔
آپریشن ریزالوو کے لیے کی جانے والی امریکی عسکری نقل و حمل کے نگران کمانڈر کرنل ولیم ایس گالبریتھ نے رواں برس مئی میں کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ اس آپریشن کا مقصد شفاف ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ ہنگامی صورت حال میں فوجی موومنٹ کس حد تک سہل ہو سکتی ہے۔