برونائی میں کرسمس منانے پر پابندی
23 دسمبر 2015برونائی کے علماء نے واضح طور پر کہا ہے کہ کرسمس پر پابندی کا سختی سے دفاع کیا جائے گا اور کسی شخص کو حکومتی پابندی توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ برونائی کے سلطان حسن البلکیا نے گزشتہ برس ملک میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وہ شریعت کے نفاذ میں سخت سزاؤں کا سلسلہ وار نفاذ چاہتے ہیں۔ ان سزاؤں میں چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے اور زنا میں سنگساری بھی شامل ہيں۔
کرسمس منانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی پر پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ برونائی کے علما کے مطابق کرسمس کے موقع پر صلیب کا نشان دکھانا، شمعیں (موم بتیاں) روشن کرنا، گھروں یا ریستورانوں میں کرسمس ٹری رکھنا، کرسمس کے خصوصی گیت گانا اور کرسمس کے تہوار کے لیے خصوصی مبارک باد کے پیغامات روانہ کرنے کو اسلامی عقیدے کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح سانتا کلاز سے مماثلت رکھنے والے ہیٹ یا کپڑے پہننے کو بھی اسلامی شعار کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
برونائی میں مسيحيوں کے ليے کرسمس منانے کی بظاہر اجازت ہے اور اِس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ اِس کے لیے کھلے عام اور بے پناہ مسرت کے اظہار سے اجتناب کیا جائے۔ حکومتی حکم نامے کے اجراء کے بعد کاروباری حلقوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ بازاروں، شاپنگ مال اور ہوٹلوں پر لگائی گئی خوشنما جھنڈیوں اور جلملاتی روشنیوں کو اتار دیا گیا ہے کیونکہ حکومتی اہلکاروں نے چیکنگ کا عمل شروع کر دیا ہے۔ مغربی سیاحوں کے مقبول اور پرتعیش ہوٹلوں کو بھی استثنیٰ نہیں دیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر برونائی میں لوگ بھی حکومتی پابندی سے قدرے مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ برونائی میں کام کرنے والے ایک ملائیشیائی نے حکام کے خوف سے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ یہ اُس کی زندگی کا سب سے اداس کرسمس ہے۔ اِس نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ سلطان کی مرضی و منشا سے ہو رہا ہے۔ عام تاثر یہ ہےکہ دو برس قبل برونائی کے مسلمان اور مسیحی ایک ساتھ مل کر کرسمس کی خوشیوں میں شریک ہوتے تھے اور دو برس بعد سب کچھ مرجھا کر رہ گیا ہے۔ برونائی کے کئی مسیحی اِس پابندی پر خاصے برہم دکھائی دیتے ہیں جبکہ کئی ایک کا کہنا ہے کہ برونائی ایک اسلامی ملک ہے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان پر صبر شکر کرنا چاہیے۔
برونائی کے سلطان حسن البلکیا دنیا کے امیر کبیر افراد میں شمار کیے جاتے ہیں اور اُن کے ذاتی اثاثوں کی مالیت بیس بلین ڈالر سے زائد ہے۔