’بریوک ناروے کی معاشرتی اقدار کو نقصان نہ پہنچا سکا‘
22 جولائی 2016اس وقت دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو دہشت گردی یا شدت پسندی سے متاثر ہیں اور روایتی طور پر اپنی کھلی معاشرتی اقدار کو قائم رکھنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ مگر ناروے کے یوٹویا نامی جزیرے پر آندرے بیہرنگ بریوک کے نفرت انگیز قتل عام کو پانچ برس گزرنے کے باوجود بھی سیکنڈے نیویا کی یہ ریاست ’کھلے پن‘ اور ’محبت‘ کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اُس وقت کے وزیراعظم ژینس اسٹولٹن برگ نے اس حملے کے بعد اپنے ہم وطنوں سے خطاب کرتے ہوئے اس کا جواب اپنے اقدار سے جڑے رہنے کے مشورے کے سے ساتھ ان الفاظ میں دیا تھا، ’’ہمارا ردعمل زیادہ جمہوریت، زیادہ کُھلا پن اور زیادہ انسانیت ہے۔‘‘
22 جولائی 2011ء کو پورا ناروے اس وقت ششدر رہ گیا تھا جب دارالحکومت اوسلو میں ایک حکومتی عمارت کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد اور اس کے بعد یوٹویا نامی جزیرے پر لیبر پارٹی کے ایک یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے نتیجے میں 69 دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔
نائن الیون حملوں کے بعد امریکا نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا اعلان کر دیا تھا مگر اس حملے کے بعد ناروے کے وزیراعظم اسٹولٹن برگ کی حکومت نے ’نفرت کا جواب محبت‘ سے دینے کی حکمت عملی اپنانے کو فوقیت دی۔
یورپ کے دیگر ملکوں میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کے بعد رد عمل میں سکیورٹی بڑھانے کی بات کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں شہری آزادیوں میں کمی ہوتی ہے، مگر ناروے کے عوام نے اس واقعے پر اپنے کھُلے معاشرے کے طور پر اپنی پہچان اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دی۔
لیبر پارٹی کے یوتھ وِنگ کے سابق رہنما ایسکل پیڈرسن کے مطابق، ’’ملک آج بھی بہت سے حوالوں سے ویسا ہی ہے (جیسا کہ بریوک کے حملے سے قبل تھا)۔۔۔ اور یہ ایک اچھی بات ہے۔‘‘
پیڈرسن یوٹویا میں ہونے والے اس حملے کے وقت وہاں موجود تھے اور بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے پیڈرسن کا مزید کہنا تھا، ’’دہشت گردی کا ایک مقصد معاشرے کو اُلٹ پلٹ کر دینا ہوتا ہے۔ لہذا یہ ہماری فتح ہے کہ ہم نے ہر چیز تبدیل نہیں کی اور ہم آج بھی اپنا قابل شناخت چہرہ دکھا سکتے ہیں۔‘‘
اس حملے کے بعد ناروے میں حکومت کی جانب سے امریکی طرز کے قومیت پرستانہ اقدامات، انسداد دہشت گردی جیسے قوانین بنانے یا گلیوں اور سڑکوں پر مسلح فورسز کی تعیناتی نہیں کی گئی۔
پیڈرسن کہتے ہیں، ’’اگر 22 جولائی 2011ء جمہوریت کا ایک امتحان تھا، تو میرا خیال ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم یہ امتحان پاس کر چکے ہیں۔۔۔ لیکن یہ حتمی فتح نہیں ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کے گرد متحد رہنے کا عمل جاری رکھنا ہو گا۔‘‘