1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ اور یورپی سمٹ: پریشانی کی بجائے سوچ بچار پر اتفاق

امجد علی 30 جون 2016

بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں منعقدہ یورپی یونین کی دو روزہ سربراہ کانفرنس اس اتفاق رائے کے ساتھ ختم ہو گئی ہے کہ بریگزٹ پر عجلت میں کچھ کرنے کی بجائے پہلے ستمبر کے مہینے تک حالات پر غور و فکر کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1JGbO
EU Gipfel Merkel nach dem Abschluss
جرمن چانسلر انگیلا میرکل برسلز میں دو روزہ یورپی یونین سمٹ کے بعد روانہ ہو رہی ہیںتصویر: Reuters/E. Vidal

منگل کو یورپی یونین کی اس سربراہ کانفرنس کے پہلے روز برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اس میں شریک ہوئے۔ کیمرون نے ستائیس رکن ملکوں کو برطانیہ میں ہونے والے ریفرنڈم کی تفصیلات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ بریگزٹ سے متعلق باقاعدہ کارروائی کے آغاز کے لیے کم از کم نو ستمبر تک کی مہلت بھی حاصل کر لی، جب اُن کے جانشین کی نامزدگی عمل میں آئے گی۔

اس کانفرنس کے دوران برطانیہ کو یقیناً اس امر کا احساس ہوا ہو گا کہ اب اُس کے لیے مستقبل میں حالات کیا صورت اختیار کرنے والے ہیں کیونکہ کل دوسرے روز ستائیس رکن ممالک کے رہنماؤں نے کیمرون کے بغیر ہی اپنا اجلاس منعقد کیا۔ گزشتہ چالیس برسوں میں کسی برطانوی نمائندے کے بغیر سمٹ کے انعقاد کا یہ پہلا موقع تھا۔ ساتھ ہی ان ستائیس ممالک نے لندن حکومت کو خبردار کیا کہ اب ’حقوق اور فرائض‘ کے معاملے میں برطانیہ کو ایک ’تیسرا ملک‘ سمجھا جائے گا اور یہ کہ اگر وہ یونین کے فری ٹریڈ زون تک رسائی کا خواہاں ہے، تو پھر اُسے یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو بھی اپنے ہاں قبول کرنا ہو گا۔

ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک نے کہا کہ اگر برطانیہ آئندہ بھی یونین کی پانچ سو ملین صارفین پر مشتمل سنگل مارکیٹ تک رسائی کا خواہاں ہے، تو پھر اُسے نقل و حمل کی آزادی کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ ٹُسک کا یہ موقف برطانیہ کے یونین سے اخراج کے حامی برطانوی حلقوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جنہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ یونین سے بڑی تعداد میں پناہ کے متلاشیوں کے برطانیہ میں داخلے کو تو محدود کر دیا جائے گا البتہ برطانوی کمپنیاں بدستور آسانی کے ساتھ براعظم یورپ میں اپنا ساز و سامان اور خدمات فروخت کر سکیں گی۔

EU Gipfel Abschluss PK Juncker und Tusk
سمٹ کے بعد یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر (بائیں) اور یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک (دائیں) ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Reuters/F. Lenoir

جرمن چانسلر بھی کہہ چکی ہیں کہ یونین چھوڑنے کے بعد برطانیہ یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ اُسے خصوصی مراعات دی جائیں گی۔ یہ خدشات بھی ہیں کہ دیگر رکن ملکوں میں بھی یونین کی بڑھتی ہوئی مخالفت کی موجودگی میں برطانیہ کو خصوصی مراعات دینے سے مزید رکن ملکوں کے یونین سے اخراج کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

اسی دوران برطانیہ میں کیمرون کی جانشینی کی دوڑ میں لندن کے سابق میئر بورس جانسن کے ساتھ ساتھ اب خاتون وزیر داخلہ تھیریسا مے بھی شامل ہو گئی ہیں جبکہ اپوزیشن لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن پر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید