’بریگزٹ‘ مے کو بات چیت شروع کرنے کا اختیار مل گیا
9 فروری 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی پارلیمان میں اس قرارداد پر ووٹنگ بدھ کی شب ہوئی، جس میں 494 ارکان نے اس کی حمایت جبکہ 122 نے مخالفت کی۔ اس طرح اب وزیراعظم ٹریزا مے لزبن معاہدے کے آرٹیکل پچاس پر عمل کرتے ہوئے برطانیہ کے اٹھائیس رکنی یورپی یونین سے علیحدگی کے موضوع پر مذاکرات کا آغاز کر سکیں گی۔ اس عمل میں دو سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
وزیر برائے بریگزٹ ڈیوڈ ڈیوس نے کہا،’’ آج کی شب ہم نے تاریخی رائے شماری دیکھی۔ ایک غالب اکثریت نے یورپی یونین سے انخلاء کی بات چیت شروع کرنے اور رکن ممالک کے ساتھ مضبوط شراکت داری کے حق میں فیصلہ کیا ہے‘‘۔
دو شرائط پر مبنی اس قانونی دستاویز کو اب ہاؤس آف لارڈز یعنی ایوان بالا میں پہنچا دیا گیا ہے، جہاں ممکنہ طور پر اسے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایوان بالا میں ٹریزا مے کی قدامات پسند جماعت اکثریت میں نہیں ہے۔
گزشتہ برس جون میں برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج کی وجہ سے یورپی یونین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ تاجر یورپی یونین کے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا شکار ہو گئے تھے۔
ابتدائی طور پر ایسی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ یورپی یونین کے حامی ارکان پارلیمان شاید بریگزٹ کے عمل کا راستہ روک لیں گے۔ بریگزٹ کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد پر پانچ روز سے جاری بحث کے دوران یہ واضح ہو گیا تھا کہ زیادہ تر ارکان اس عمل کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ ان میں وہ ارکان بھی شامل ہیں، جو برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کو ایک بڑی غلطی سے تعبیر کرتے ہیں۔