بریگزٹ کے بعد برطانیہ خصوصی سلوک کی توقع نہ رکھے، میرکل
28 جون 2016منگل کے روز جرمن پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے میرکل نے واضح طور پر کہا، ’’برطانیہ کے ساتھ یورپی یونین سے اخراج کے مذاکرات میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا اور یہ خیال رکھا جائے گا کہ برطانیہ رکن نہ ہونے کی صورت میں کچھ سہولیات اپنے لیے مختص کرنے کی کوشش نہ کرے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملک یورپی منڈیوں تک آزاد رسائی چاہتا ہے تو اسے یورپی یونین کے بنیادی قانون کو تسلیم کرنا ہو گا۔‘‘ میرکل نے مزید کہا کہ اگر کوئی اس خاندان سے الگ ہونا چاہتا ہے تو اسے یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ ذمہ داریوں کے خاتمے کے ساتھ ہی دی جانے والی مراعات بھی ختم بھی ہو جائیں گی۔
جرمن چانسلر نے کہا کہ یونین کے باقی ماندہ ستائیس ملکوں کو آپس میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ میرکل کے بقول اب آگے کی جانب دیکھنے اور درست نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرکل نے کہا کہ وہ ہر اُس تجویز کا خیر مقدم کریں گی، جس پر عمل کر کے پوری یورپی یونین کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہو۔ میرکل نے کہا کہ وہ یورپ کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں گی۔ اس بیان میں میرکل نے خبردار بھی کیا کہ بریگزٹ کے علاوہ یورپی یونین یونین کے ذمے دوسرے اہم کام بھی ہیں۔ ان کے مطابق برطانوی ریفرنڈم کے نتیجے کے بعد شامی اور عراقی پناہ گزینوں کے مسائل پر توجہ کم نہیں ہونی چاہیے، ’’ہم صرف مل کر ہی ہجرت، بھوک، ماحولیاتی تبدیلیوں اور دہشت گردی جیسے عالمی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔‘‘
جرمن چانسلر میرکل نے اپنے اس خطاب میں یہ بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ میں ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین میں حالات اس نہج پر ہیں کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی:’’یورپی یونین ایک تاریخی موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔‘‘ تاہم میرکل کے مطابق یورپی یونین کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہے:’’یورپی یونین اتنی مضبوط ہے کہ وہ برطانیہ کے نکلنے کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یورپی یونین اتنی طاقتور ہے کہ وہ بقیہ ستائیس ممالک کے ساتھ بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘