بستی حضرت نظام الدین کی منفرد تاریخی اہمیت
19 نومبر 2020اگر آپ کچن میں کھانا پکا رہے ہوں اور ایسے میں کانوں میں کسی مشہور شاعر کا کلام رس گھول رہا ہو، دوسری طرف کوئی مولوی صاحب پند و نصیحت کا خزینہ کھولے ہماری کی عاقبت سنوارنا چاہتے ہوں، ادھر برتنوں کی کھنکناہٹ کے بیچ معروف قوال کا صوفیانہ کلام وجد طاری کر کے سحر انگیز سماں پیدا کرے تو اس جگہ کو کیا نام دیں گے۔ مگر جو لوگ بھارتی دارالحکومت دہلی کی بستی نظام الدین میں رہتے ہیں، ان کے لیے یہ تو روز مرہ کا معمول ہے۔
مجھے مرزا غالب کے مزار، ،تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز بنگلہ والی مسجد اور درگاہ نظام الدین کے عرس محل کے بیچوں بیچ رہتے ہوئے پچھلے بیس سال سے روز ہی باورچی خانے سے ہی مشاعروں، واعظوں اور محفل سماع سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ بستی حضرت نظام الدین کی تہذیبی اور ثقافتی گوناگونی کی منفرد مثال ہے جو ا پنے سینہ میں بر صغیر میں مسلم سلاطین کے دورکی ایک تاریخ سمائے ہوئے ہے۔
دلی، جو سات بار اجڑی اور بسی، میں مہرولی، تغلق آباد، فیروز شاہ کوٹلہ وغیرہ اپنی تاریخی اہمیت اور حیثیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں بستی حضرت نظام الدین کو کئی اعتبار سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ابتدا سے یہاں رہائش پذیر ہوں جب میں اپنے آبائی وطن بیڑ (مہاراشٹر) کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ یہاں وارد ہوئی۔
بستی کے ایک کنارے پر مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے تو دوسر ے کنارے پر حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ واقع ہے۔ اور اس درمیان میں ادب و ثقافت کی مایہ ناز ہستییاں حضرت امیر خسرو، عبدالرحیم خان خاناں، اسد اللہ خان غالب، خواجہ حسن نظامی اور مشہور موسیقار صوفی عنایت خان بھی آرام فرما ہیں۔
یہ بستی دلی کے وسط میں واقع ہے جو نہ صرف جدید اور قدیم کا ایک حسین سنگم ہے بلکہ دو مختلف مسلکوں کے درمیان ہم آہنگی کی قابل تقلید مثال بھی پیش کرتی ہے۔ مسلمانوں میں مسلک کے حوالے سے اکثر جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ مگر یہاں میں نے کبھی ایسی کیفیت نہیں دیکھی۔ درگاہ کے محض چند قدم کے فاصلہ پر تبلیغی مرکز ہے۔ میں اکثر درگاہ جایا کرتی ہوں مگر میرے کانوں پر درگاہ کے سجادگان کی طرف سے کبھی مرکز تبلیغ کے بارے میں کوئی بات سننے کو نہیں ملی۔ یہی چیز مرکزمیں بھی دیکھنے کو ملتی جہاں عورتوں کے لیے علیحدہ سے انتظام ہے۔
ہر جمعرات کے دن پوری دلی سے بستی میں ایک ہجوم سا چلا آتا ہے یہ درگاہ کی زیارت کا مخصوص دن ہوتا ہے وہیں حسن اتفاق سے تبلیغی مرکز کا ہفتہ واری اجتماع بھی اسی دن ہوتا ہے۔ اس دن یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی ہے۔ آپ کو یہاں طرح طرح کے دلچسپ تجربات سے سابقہ پڑے گا۔اکثر یہ ہوتا ہے کہ جسے درگاہ میں جانا ہے وہ ناواقفیت کی بنا پر تبلیغی مرکز میں چلا جاتا ہے۔ ایک ایسی ہی خاتون مجھ سے ٹکرا گئی جو غلطی سے درگاہ سمجھ کر مرکز (تبلیغ) کی عمارت میں داخل ہوئی تھی۔کہنے لگی 'ہائے یہ کیسے مولوی حضرات ہیں کہ مزار کو ہی چھپا دیا ہے‘۔ میں نے ان محترمہ سے کہا کہ دراصل آپ یہاں (مرکز) بھیڑ دیکھ کر غلط فہمی کا شکار ہوگئی۔
حضرت نظام الدین اولیاء کے نام سے موسوم یہ بستی 13ویں صدی کے ابتداء میں معرض وجود میں آئی ۔ اس کا محل وقوع اور رقبہ بہت وسیع نہیں ہے لیکن اسے پورے برصغیر ہند میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں سب سے زیادہ مسلم عہد وسطیٰ کی شاندار عمارتیں آج بھی اپنے جاہ و جلا ل کے کھڑی ہیں۔ دلی کے مسلم سلاطین کے ہر خاندان (غلامان، خلجی، تغلق، لودھی، سوری اور مغل خاندانوں) نے یہاں شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں ۔ پہلے یہ بستی دریائے جمنا کے کنارے آباد تھی مگر 19ویں صدی میں دریا کا بہاؤ مشرق کی جانب سرک گیا۔
خواجہ نظام الدین اولیاء (9 اکتوبر 1238 تا 3 اپریل 1325)
آپ سلسلہ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ ہیں جن کا آپ کا اصل نام سید محمد نظام الدین، والد کا نام سید احمد بخاری ہے۔ آپ کے القابات 'نظام الاولیاء‘، 'محبوب الہی‘، 'سلطان المشائخ‘، 'سلطان الاولیاء‘ اور 'زری زر بخش‘ وغیرہ ہیں۔ ان کا آستانہ مسلم او غیرمسلم سب کے لیے آج بھی مرجع اخلاق بنا ہوا ہے۔
امیر خسرو
آپ نظام الدین اولیا کے چہیتے مرید اور مشہور خلیفہ ہیں جو فارسی اور اردو کے صوفی شاعر اور ماہر موسیقی ہیں۔ وہ طوطی ہند کے نام سے مشہور ہوئے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر انہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے۔ ان کے آبا و اجداد ترک تھے۔ وہ 1253ء میں پٹیالی، آگرہ پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ امیرخسرو نے سلطنت دہلی (خاندان غلامان، خلجی اورتغلق) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ انہوں نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قول اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ وہ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم ستون ہیں۔ اور اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد تصور کیے جاتے ہیں اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے۔
مغل شہنشاہ ہمایوں
ہمایوں مغل سلطنت کے بانی بابر کے جانشین ہیں جنہیں مطالعہ کا بڑ اشوق تھا۔ ان کی موت بھی اپنے کتب خانہ کی سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ان کا مقبرہ ان کی بیگم حمیدہ بانو نے تعمیر کرایا جسے تاج محل کا نقش اول قرار دیا جاتا تھا۔ یہ مغل فن تعمیر کی پہلی بڑی عمارت ہے۔
عبد الرحیم خانخاں
وہ مغل بادشاہ اکبر کے اتالیق بیرم خان کے بیٹے تھے۔20سال کی عمر میں شہزادہ سلیم (جہانگیر)کے اتالیق مقرر ہوئے۔ بہادرسپاہی، عالم فاضل اور عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت کے ماہر تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر اور قصہ گو اور علم نجوم کے ماہر کے علاوہ اردو زبان کے ایک فصیح و بلیغ شاعر تھے۔۔ خانخاں کا مقبرہ بھی یہی ہے جس کی مرمت اور تجدید کا کام آغا خان ٹرسٹ کر رہا ہے۔ جس نے بستی کی ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی عظمت کو بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مرزا ا سد اللہ خان غالب
غالب (1797ء- 1869ء) کا شمار اردو زبان کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے اور 19 ویں صدی کو غالب کی صدی کہا جاتا ہے۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے بلکہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو بڑی سادگی سے اداکر دیتے ہیں۔ ان کا زمانہ ایک پر آشوب دور تھا۔انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور انگریزوں کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔ وہ پرانی دلی کے محلہ بلیماران میں رہتے تھے مگر وہ بستی میں مدفون ہیں جس کا فاصلہ تقریباً سات آٹھ کلومیٹر ہے۔ ہرسال غالب کے یوم ولادت اور وفات پر مزار کے احاطہ میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔
خواجہ حسن نظامی
خواجہ حسن نظامی سلسلہ چشتیہ کے صوفی اور اردو زبان کے ادیب تھے جنہیں مصور فطرت بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اچھے اور منفرد انشاپرداز، صحافی،سیاسی رہنما، بے باک مقرر تھے۔ صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ (رعیت) سے ہوا۔ ان کے مضامین مخزن میں چھپتے رہے۔ اخبار (منادی) میں ان کا روزنامچہ شائع ہوتا رہا جو دلی کی تاریخ بھی ہے۔ انہوں نے میرٹھ سے ایک اخبار'توحید‘ نکالا۔ان کی تصانیف چالیس کے لگ بھگ ہیں جن میں سیپارہ دل، بیگمات کے آنسو، غدر دلی کے افسانے، اور سفر نامہ ہندوستان مشہور ہیں۔ پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ آپ نے 31 جولائی 1955 کو دلی میں وفات پائی اور درگا ہ حضرت نظام الدین کے احاطے میں دفن ہوئے۔
صوفی عنایت خان (1882-1927)
صوفی عنایت خان کا مزار بھی درگاہ نظام الدین کے قرب میں واقع ہے۔ ان کی پیدائش موسیقاروں کے خاندان میں ہوئی۔ اپنے استاد سید محمد ابو ہاشم مدنی کے حکم پر وہ مغرب میں تصوف پھیلانے کے لیے گئے۔ انہوں نے وہاں تصوف سلسلہ شروع کیا جسے اب نیویارک میں صوفی آرڈر انٹرنیشنل کہا جاتا ہے۔ ان کے مریدین میں یورپ و امریکا کے شہریوں کی بڑی تعداد ہے۔ حید ر آباد کے حکمراں نظام میر عثمان علی خان نے انہیں 'تان سین‘ کا خطاب سے نوازا تھا۔
عمارتیں
دیگر تاریخی عمارتوں میں چونسٹھ کمھبا جس میں شاہی خاندان کے ارکان مدفون ہیں، عرس محل (جس کی تعمیر جموں وکشمیر کے وزیراعظم بخشی غلام محمد نے کی تھی) ، عرب کی سرائے، لودھی سلاطین کا مقبرے، نیلا گنبد دو قدیم مندر اور لا ل محل وغیرہ نمایاں ہیں۔ جدید عمارتوں میں غالب اکیڈمی نمایاں ہے جو 1969میں قائم ہوئی۔ یہ بھارت میں غالب کے نام پر قائم ہونے والی پہلی اکیڈمی ہے۔
بلا شبہ اس قدیم بستی کی گلیاں تنگ ضرور ہیں مگر لوگوں کے دل کشادہ اور مہمان نوازی سے معمور ہیں جو سیلانی یہاں آتے ہیں یہ خوش گوا ر احساس اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔