بشار الاسد پر مزید پابندیاں، یورپی وزراء متفق
21 جون 2011یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں ہوا، جہاں بعض نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بشار الاسد اصلاحات کا راستہ اپنائیں یا عہدہ چھوڑ دیں۔
یورپی وزراء کا یہ مؤقف ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب شام میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔ اس تناظر میں یورپی رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جانب سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایسی کسی کارروائی کے لیے روس کی مخالفت کی مذمت بھی کی ہے۔
پیر کو ہی بشار الاسد نے شام میں پرتشدد مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے لے کر اب تک تیسرا خطاب بھی کیا۔ اُمید ظاہر کی جا رہی تھی کہ وہ تشدد کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس پیش کش کریں گے۔
تاہم فرانس کے وزیر خارجہ Alain Juppe نے کہا: ’’شام کے رہنما ایسے مقام پر جا پہنچے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’بعض لوگوں کو یقین ہے کہ ان کے پاس اپنا طریقہ کار بدلنے اور اصلاحات کا عمل شروع کرنے کے لیے تاحال وقت ہے۔ مجھے اس پر شبہ ہے۔‘‘
برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بشار الاسد کی تقریر کو دلائل سے عاری قرار دیا۔ انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ ترکی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے دمشق حکومت کو بتائے کہ وہ اپنی قانونی حیثیت کھوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ بشار الاسد کو بتائے کہ وہ اصلاحات کا راستہ اختیار کریں یا اقتدار چھوڑ دیں۔
یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن نے بشار الاسد کی تقریر پر مایوسی ظاہر کی جبکہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اسے ناقابل اصلاح کہا۔
ویسٹر ویلے نے کہا: ’’ایسا لگتا ہے کہ وقت کے اشارے ان کی سمجھ میں نہیں آئے۔‘‘
قبل ازیں بشار الاسد نے اپنی تقرر میں کہا کہ مذاکرات نئے آئین کی راہ ہموار کر سکتے ہیں بلکہ اقتدار پر ان کی جماعت بعث کی گرفت بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بحران کے دوران اصلاحات کا عمل نہیں اپنائیں گے۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبر رساں ادارے
ادارت: شامل شمس