بلاول کو سندھ کے کچے کے علاقوں کا بھی بتائیں
27 مئی 2021خاص طور پر اگر بس میں بارات جا رہی ہو تو اس کا مسلح ڈاکووں کے ہاتھوں لُٹنا معمول تھا۔ ایسے ہی ڈکیت گروہ کا نشانہ بننے کے کچھ قصے دادو کی جانب جانے والی شاہراہ کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ یہ تو بڑے شہروں کے درمیانی مصروف مرکزی قومی شاہراہ کے مسافروں کے تجربات ہیں۔
اندرون سندھ میں بستیوں، دیہہ اور ضلعوں خاص طور پر سکھر، شکار پور، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، سندھ کے مغربی علاقے، سندھ پنجاب اور سندھ بلوچستان سرحدی علاقوں کو جو ذیلی سڑکیں آپس میں ملاتی ہیں، وہاں رات میں سفر کرنے والوں کے پاس تو سنانے کو اور بھی بھیانک کہانیاں ہیں۔
صحافت حق سچ کا بول بالا تو کرنا چاہتی ہے مگر کچھ موضوعات کو ان کی ڈیمانڈ اہم بنا دیتی ہے اور وہی موضوعات میڈیا میں مسلسل فوکس رہتے ہیں۔ سندھ میں ڈکیت گروہ، جرائم پیشہ افراد کے روپوش ہونے کی جنت یعنی کچے کے علاقے میڈیا میں کبھی مقبول موضوع نہیں رہے۔ یہ علاقے جرائم کا گڑھ سارا سال رہتے ہیں مگر خبروں میں شاید سال بھر میں ایک دن بھی بمشکل جگہ بنا پاتے ہیں، وہ بھی تب، جب وہاں معاملہ خون خرابے میں حد سے بڑھ جائے۔
سو یہ ہے کہ کم از کم میڈیا سے تو بلاول کو یہ علم ہونا ذرا مشکل ہے مگر پیپلزپارٹی کے بڑے اگر بریفنگ دیں گے تو ان کے بہت کام آئے گی کہ سندھ کے شہر شکار پور کے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں ان دنوں ہو کیا رہا ہے۔ بلاول کو بتائیں کہ سندھ میں ہر جگہ تیر پہ ٹھپہ نہیں چلتا۔کہیں وڈیرہ، کہیں اسلحہ چلتا ہے اور کہیں چلتا ہے ڈکیت گروہوں کا سکہ۔
بلاول کو یہ بریفنگ بھی دی جائے کہ سندھ پہاڑی سلسلوں، دریائے سندھ کے کنارے جنگلات، دریائی جزیرے اور زمینی راستوں سے پرے موجود کچے کے علاقے کون سے ہیں، ان کی بلوچستان اور پنجاب کے ڈکیت اور دہشت گرد گروہوں سے کیا ساز باز ہے۔
بلاول بھٹو ہوشیار آدمی ہیں، انہیں معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ ہو جائے گا کہ سندھ کی ترقی میں رکاوٹ کہاں سے پڑ رہی ہے، راستہ کھوٹا کون کرتا ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ سندھ کے کچے میں موجود ڈکیت گروہ اغوا برائے تاوان کی واردات کرتے ہیں تو پھر ججز کے اہل خانہ کو بھی نہیں چھوڑتے۔ اپنے گرفتار ڈکیت ساتھی رہا کرانے پر آجائیں تو حکومت سے سودے بازی کے لیے غیر ملکی انجینئرز بھی اٹھا لیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو کے خیرخواہ انہیں کھلے بندوں نہ سہے چپکے چپکے بتاتے رہا کریں کہ پارٹی میں وہ کون سے رہنما، ممبران اسمبلی، مشیران اور علاقائی سپورٹرز ہیں، جو پس پردہ ان خطرناک جرائم پیشہ گروہوں کے ان داتا بنے ہوتے ہیں۔ وہ کون سے عناصر ہیں، جو چاہتے ہیں کہ سندھ کے کچے کے علاقے کبھی پکے نہ ہوں تاکہ ان کی راجدھانی سندھ حکومت کی رٹ سے بچ بچا کر ٹھنڈے ٹھنڈے میں چلتی رہے۔
اگر یہ تذبذب ہے کہ بلاول بھٹو کو کچے کے علاقوں کی بریفنگ دینا کیوں اہم ہے تو جناب یہ اہم ہی نہیں ضروری بھی ہے۔ اب جب کہ یہ طے ہے کہ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی پگ نوجوان بلاول بھٹو کے سر پہ ہے۔ لاکھوں کارکنوں، ہزاروں پارٹی ذمے داروں اور درجنوں تجربہ کار نابغہ ء روزگار بزرگ سیاستدانوں، مرکزی رہنماوں کی بھیڑ میں ایک بلاول ہی وہ واحد ہیں، جو لیڈر بننے لائق ہیں۔ تو ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے بلاول کو علم ہونا چاہیے کہ سندھ کی گاڑی چلانے میں راستہ کہاں موٹر وے جیسا پکا ہے، کہاں گڑھی تیغو جیسا کچا۔
بروقت موقع ہے کہ پارٹی کے مشیران، ہمدرد اور بزرگ بلاول بھٹو کو پیپلزپارٹی کے زیر اقتدار صوبے سندھ کی الف بے سے لے کر بڑی یے تک پوری ابجد سکھائیں۔ بلاول کو بتائیں کہ سندھ میں کاف سے پکا کراچی ہے اور اسی کاف سے کچے کے علاقے بھی ہیں۔ صرف موہن جو درڑو ہی نہیں، جو صدیوں قدیم نظام کا مظہر ہے، آپ اگر دورہ کریں تو دیکھیں گے کہ دریائے سندھ کے آزو بازو ڈکیتوں کی پناہ گاہیں بھی آپ کو صدیوں قدیم وڈیرہ شاہی کے غنڈہ راج کا عکس پیش کریں گی۔
بلاول نوجوان ہیں، آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ اور ایک عالمی لیڈر بے نظیر بھٹو کے فرزند ہیں۔ وہ برطانیہ میں پڑھے لکھے، والدہ کی جلا وطنی اور بے باک انداز سیاست کے باعث اکثر ملک سے باہر ہی پلے بڑھے، اس لیے گمان کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس ایسے کچے کے علاقے جیسی بظاہر غیر اہم معلومات کم کم ہی ہو گی۔
پیپلزپارٹی کی قیادت پارٹی چئیرمین کو دیگر موضوعات کی طرح اس مسئلے سے بھی روشناس کرائے گی تو ان کے پاس یقیناً سندھ کے دیرینہ مگر لائم لائٹ سے پرے اندھیروں میں پنپنے والے مسائل کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوگا، لیڈر اسی کو کہتے ہیں۔