بلاٹر FIFA کی صفوں میں اسکینڈلز کے باوجود صدر منتخب
2 جون 2011حقیقت تو یہ ہے کہ عالمی فٹ بال فیڈریشن فیفا پیسہ بنانے کی ایک مشین ہے، جسے ڈھیروں آمدنی ہوتی ہے، جو کھلے دل کے ساتھ اپنی رکن قومی فٹ بال فیڈریشنز میں پیسہ تقسیم کرتی ہے اور اِس آمدنی کا ایک بڑا حصہ خود اپنے پاس رکھتی ہے۔ 2007ء سے لے کر 2010ء تک خاص طور پر جنوبی افریقہ میں عالمی فٹ بال چیمپئن شپ کی وجہ سے فیفا کو تین ارب یورو کی ریکارڈ آمدنی ہوئی۔
1998ء سے فٹ بال مقابلوں کے منتظم اِس اقتصادی ادارے کی سربراہی کے فرائض سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے سیپ بلاٹر انجام دیتے چلے آ رہے ہیں۔ جو شخص تیرہ برسوں سے کسی تنظیم کی قیادت کرتا چلا آ رہا ہو، وہ یہ دعویٰ تو شاید کر سکتا ہو کہ اُسے اپنے ادارے کی صفوں میں بدعنوانی کی خبر نہیں تھی تاہم وہ شخص اِن خرابیوں کا ذمہ دار دیگر افراد کو نہیں ٹھہرا سکتا۔ ظاہر ہے، ذمہ داری سربراہ کی ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر بلاٹر کے معاملے میں رعایت برتی جائے تو بھی گزشتہ برسوں کی خرابیوں کا مطلب یہ ہو گا کہ معاملات بلاٹر کے قابو میں نہیں تھے۔ تاہم کرنے کو یہ قیاس آرائی بھی کی جا سکتی ہے کہ اُنہیں ان خرابیوں کا علم تھا۔ اصل صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ اِس عالمی تنظیم کے قائد کے طور پر بلاٹر اب مزید قابل برداشت نہیں رہے۔
جرمن فٹ بال فیڈریشن کے صدر تھیو سوانسیگر نے کہا ہے کہ فیفا بلاٹر کے بغیر قیادت کے فقدان کا شکار ہو جائے گی اور عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گی۔ یہ بات فیفا کی مجلس عاملہ کے نئے رکن کے طور پر سوانسیگر کے لیے بھی اور اس اعلیٰ کمیٹی میں اُن کے دیگر ساتھیوں کے لیے بھی باعث تشویش ہونی چاہیے۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ایک عالمی تنظیم اپنے چیئرمین کی اس قدر محتاج ہو کہ وہ پیچھے ہَٹ جائے تو اُس تنظیم کا سارا ڈھانچہ ہی نیچے آ رہے۔ کہاں گئے فٹ بال کی دُنیا کے وہ سارے نام نہاد پاک صاف عہدیدار، جو آگے بڑھ کر اس ورثے کو سنبھال سکتے تھے؟ یہ تاثر زور پکڑ رہا ہے کہ وہ سارے افراد پردے کے پیچھے چلے گئے ہیں اور اس لیے چلے گئے ہیں کہ وہ ماضی میں بلاٹر اور اُن کے وضع کردہ نظام سے جی بھر کے فائدے حاصل کرتے رہے ہیں۔
فیفا بظاہر یہ تاثر دیتی ہے کہ اُس کا انتظامی ڈھانچہ جمہوری ہے۔ درحقیقت آج کل اس تنظیم میں ایک طرح کی لاقانونیت نظر آ رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بالآخر پیسہ ہی اس بات کا فیصلہ کر رہا ہے کہ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، کس کے ہاتھ میں رہے گی اور کسے فٹ بال کے مقابلے کروانے کی اجازت ملے گی۔ فیفا کو معاشی اعتبار سے تو شاید صحت مند کہا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی اعتبار سے فٹ بال کی یہ عالمی تنظیم سخت بیمار ہو چکی ہے۔ اِسے تازہ خون کی ضرورت ہے، اِسے ایک سنجیدہ اور مستحکم سربراہ چاہیے، جس کا نام بلاٹر یقیناً نہیں ہے۔
تبصرہ: سٹیفن نیسٹلر / ترجمہ: امجد علی
ادارت: مقبول ملک