بلقان کے خطے سے مہاجرین کی اسمگلنگ کیسے ہو رہی ہے؟
25 اگست 2016مہاجرین کی اسمگلنگ میں مصروف آصف کا کہنا ہے، ’’میں نے ایک بار ایک ہی دن میں 24 سو یورو کمائے۔ اب آمدن اوسطاﹰ چھ سو سے نو سو یورو تک بن جاتی ہے۔‘‘
آصف بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں واقع ایک مسجد کے باغ میں، مہاجرین کے خان دانوں، جن کے پاس کپڑوں سے بھرے کمر بند بستے ہیں، کو اپنے ساتھ لے جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ افغانستان سے تعلق رکھنے والے اس 25 سالہ اسمگلر نے گزشتہ برس انسانوں کو بلغاریہ سے سربیا لے جانے کا دھندا شروع کیا تھا۔
بلغاریہ سے مہاجرین کی سربیا اور پھر مغربی یورپ منتقلی مستقل ہوتی رہی ہے، مگر حالیہ کچھ ماہ میں یہ کاروبار اپنے عروج پر ہے۔ اس کی وجہ اچھا موسم ہے، جس کے نتیجے میں بلغاریہ اور سربیا کے درمیان واقع جنگلاتی علاقہ عبور کرنا قدرے آسان ہو چکا ہے۔
اسی لیے ایک طرف تو یورپی شہری اور سیاح بحیرہ اسود پر واقع بلغاریہ کے ساحلوں پر دھوپ سینکتے دکھائی دیتے ہیں، تو دوسری جانب آصف مہاجرین کو بلغاریہ سے باہر نکال رہا ہے۔
اچھی طرح اطالوی زبان میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے آصف کا کہنا تھا، ’’میں یہاں پانچ مہینے ’کام‘ کرنے کے بعد اٹلی واپس چلا جاؤں گا۔ میں اٹلی سے زیادہ دیر تک دور اس لیے نہیں رہ سکتا کیوں کہ وہاں سیاسی پناہ سے متعلق میری اپنی درخواست بھی جمع ہے۔
ناقابل سکونت ملک
آصف کو اس ’کام‘ کے لیے اطالوی شہر میلان میں بھرتی کیا گیا تھا۔ اس ’کام‘ میں ملوث اسمگلروں کو کوئی ایسا شخص درکار تھا، جو دری زبان جانتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان باشندوں کی بڑی تعداد ان دنوں بلغاریہ سے سربیا پہنچنے کی تگ و دو میں ہے۔ ان مہاجرین کو خوف ہے کہ وہ یورپ میں مہاجرین کے لیے ’ناقابل سکونت‘ سمجھے جانے والے ملک میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ بلغاریہ میں مہاجرین سے متعلق قوانین انتہائی سخت ہیں، جب کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپ مہاجرین پر حملے بھی کرتے رہتے ہیں۔
تاہم بلغاریہ کے راستے مغربی یورپ تک پہنچنے کا روٹ سستا بھی ہے اور ان مہاجرین کی کوشش ہوتی ہے کہ ترکی سے بلغاریہ اور پھر بلقان کی ریاستیں عبور کر کے کسی طرح جرمنی یا فرانس پہنچ جائیں، جہاں انہیں روزگار بھی مل سکے اور بعد میں ان کے اہل خانہ بھی ان سے آن ملیں۔