بلوچ بمقابلہ بیجنگ: پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر حملے
15 مئی 2019بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے اختتام ہفتہ پر گوادر کے ایک لگژری ہوٹل پر کیا جانے والا حملہ، حالیہ بڑے دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک تھا، جس کا سِرا کئی بلین ڈالر مالیت کے حامل چائنہ - پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) سے ملتا ہے۔
سی پیک دراصل چین کے عالمی سطح پر جاری ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔ اس طرح چین کو بحیرہ عرب تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں نئی شاہراہیں، بندرگاہیں اور ایئرپورٹس تعمیر کیے جانے ہیں۔
سی پیک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی حکام اکثر گوادر کو ’مستقبل کا دبئی‘ قرار دیتے ہیں۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا اور معاشی حوالے سے غریب ترین صوبہ بلوچستان، مذہبی اور علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔
ہفتہ 11 مئی کو گوادر کے ہوٹل پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی تھی۔ اس تنظیم کے ایک ترجمان کے مطابق اس حملے کا نشانہ چینی اور پاکستانی سرمایہ کار تھے جو گوادر بندرگاہ پر ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے وہاں پہنچے تھے۔
بی ایل اے کی طرف سے میڈیا کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا تھا، ’’ہم چین کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں استحصالی منصوبے روک دے اور پاکستان میں بلوچ لوگوں کی نسل کشی میں پاکستان کی مدد نہ کرے، ورنہ ہم مزید حملوں سے اس کا جواب دیں گے۔‘‘
بی ایل اے پہلے بھی پاکستان میں چینیوں کو حملوں کا نشانہ بنا چکی ہے، یہ کہنا ہے مائیکل کوگلمین کا جو واشنگٹن میں قائم وِلسن سینٹر نامی تھنک ٹینک کے تجزیہ کار ہیں۔
کوگلمین کے مطابق نئی بات یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں میں اب انتہائی محفوظ چینی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے اسی سلسلے میں گزشتہ برس کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر کیے جانے والے خودکش حملے کی حوالہ بھی دیا۔
مائیکل کوگلمین کے بقول، ’’اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر حملے نے (بیجنگ) کو بڑی حد تک چونکا دیا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سی پیک کے اہم مرکز میں موجود ایک بڑی سہولت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘
کوگلمین کے مطابق یہ پراجیکٹ ’بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکریت پسندی میں اضافے کی بڑی وجہ بنا ہے۔‘‘
خود کو درپیش ان خطرات سے نمٹنے کے لیے بیجنگ کیا کر سکتا ہے، یہ ابھی دیکھا جانا باقی ہے۔
ایک متوقع رد عمل کا اندازہ امریکا میں رہائش پذیر ایک بلوچ رہنما کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے جس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ چینی اہلکاروں نے جلاوطنی اختیار کیے ہوئے بلوچ قوم پرستوں سے انہیں وطن واپس لانے کے عوض مدد اور تعاون حاصل کرنے کے لیے رابطے کیے ہیں۔ اے ایف پی تاہم اس دعوے کی تصدیق کرنے میں ناکام رہا۔
اس بلوچ رہنما کے مطابق، ’’میری معلومات کے مطابق وہ ابھی بھی امریکا، برطانیہ اور دیگر یورپی ملکوں میں رہنے والے نصف درجن سے زائد قوم پرست رہنماؤں سے رابطوں میں ہیں۔‘‘
ا ب ا / ا ا (اے ایف پی)