بلوچستان: ایشیا کا سب سے بڑا سولر پارک
27 دسمبر 2013اس منصوبے پر کام کا باقاعدہ اغاز ایک کورین کمپنی سال 2014ء کے اوائل میں کرے گی اور یہ منصوبہ 2017ء تک پایہ تکمیل تک پہنچے گا۔ سولر انرجی کے اس اہم منصوبےسے بلوچستان کو توانائی کے بحران کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں میگا واٹ کی اضافی بجلی بھی حاصل ہو گی۔
شمسی توانائی کے اس اہم منصوبے کا معاہدہ بلوچستان میں کوریائی کمپنی کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ۔ اس منصوبے کے لیے جدید ترین سولر انرجی پلانٹ اور سولر پینلز کوریا سے درامد کیے جائیں گے اور اس پراجیکٹ پر کام سولر انرجی کے شعبے کے اعلٰی ترین بین الاقوامی انجینئرز کی نگرانی میں کیا جائے گا۔
ماہرین کے بقول بلوچستان میں سورج کے سال بھر چمکنے اورانرجی ویلیو زیادہ ہونے کی وجہ سے انتہائی کم نرخوں پر شمسی توانائی سے بجلی حاصل کر کے صوبہ بھر میں توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ بلوچستان سولر انرجی ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر مسعود علی مرزا کے مطابق جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان میں شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار کی صلاحیت شمسی توانائی پیدا کرنے والے دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہے اور یہ قدرتی توانائی سستی ہونے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست بھی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’میرے خیال میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار کا یہ ایک بہت اہم منصوبہ ہے۔ ہمیں قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ حاصل کرنا چاہیے، سورج اپنی توانائی ایکسرے سے لے کر ریڈیو ویو کی ہر ویو لینتھ پر منعکس کرتا ہے اوراسپکٹرم کے چالیس فیصد حصے پر یہ توانائی نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں چونکہ سولر انرجی کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے اس لیے یہاں سورج کا انرجی لیول زیادہ ہونے کی وجہ سے تقریباﹰ فی مربع میٹر 19 میگا جول سولر انرجی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی افادیت اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ ماحول دوست ہے اور اس سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا۔‘‘
مجموعی طور پر پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق6800 میگا واٹ کے قریب تک پہنچ جاتا ہے اور بجلی کے شارٹ فال میں بلوچستان سرفہرست ہے۔ تاہم صوبے کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کیسکو کے سربراہ انجینئر بلیغ الزمان صدیقی بھی پر امید ہیں کہ متبادل طور پر سولر انرجی کا یہ پراجیکٹ صوبے میں توانائی کی بحرانی کیفیت کے خاتمے کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’ہمارے پاس انرجی کا اس وقت صرف ایک ذریعہ ہے اور یہاں بجلی گدو اور سبی سے آنے والی لائن سے فراہم کی جاتی ہے۔ اس لائن اور حبیب اللہ کوسٹل پاور سے ہمیں تقریبا 700 میگا واٹ بجلی ملتی ہے جبکہ ہماری ڈیمانڈ 1650 میگا واٹ کے قریب ہے۔ سولر انرجی کے پراجیکٹ سے ہمیں ضرورت کے ساتھ ساتھ اضافی 300 میگا واٹ کی بجلی میسر ہو گی۔ یہ منصوبہ چار سالوں میں مکمل ہو گا جس کے بعد اسے ہمارے نظام سے منسلک کر دیا جائے گا۔ متبادل توانائی ہمیں 20 ہزار میگا واٹ تک اضافی بجلی فراہم کر سکتی ہے۔‘‘
سائنسی امور کی ماہر ڈاکٹررخشندہ یوسفزئی کے بقول پاکستان میں بلوچستان کا خطہ شمسی توانائی کے حوالے سے بہت اہم ہے اور اگر دو چار سال پہلے ہی شمسی توانائی سے بجلی کے حصول پر کام شروع کر دیا جاتا تو آج بجلی کا بحران اتنا سنگین نہیں ہوتا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا: ’’پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں سورج کی کرنیں زیادہ دیر تک پڑتی ہیں اور سال کے 365 دنوں میں 250 سے لے کر 320 دنوں تک سورج کی دھوپ سے توانائی کی پیداوار کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی جو توانائی ہے اس کے مقابلے میں سورج کی کرنوں سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے۔‘‘
شمسی بجلی کے جدید اور ماحول دوست تصور کو اپناتے ہوئے بڑے اور طویل المدتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ حکومت نے بلوچتسان کے زرعی ٹیوب ویلز کو بھی سولر انرجی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے صوبے کی اقتصادی حالت میں بھی نمایاں بہتری واقع ہوسکے گی۔