بلوچستان، خواتین حملوں کے نئے خوف کی لپیٹ میں
31 جولائی 2014خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خوفناک جرم کو عرصے سے ہی ذاتی اور خاندانی دشنمیاں نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ حالیہ عرصے تک بلوچستان اس جرم سے انجان رہا تاہم اب وہاں بھی یہ حملے ہوئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ ہفتے کے ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا رجحان منہ اٹھا رہا ہے۔
گزشتہ منگل کو موٹر سائیکل سوار دو حملہ آوروں نے سرنج کے ذریعے دو لڑکیوں پر تیزاب پھینکا تھا۔ یہ واقعہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے چالیس کلومیٹر دُور مستونگ کے علاقے میں پیش آیا۔ اس سے ایک روز پہلے اٹھارہ سے پچاس برس کی عمر کی چار خواتین پر کوئٹہ کے علاقے سیراب میں ایسا ہی حملہ کیا گیا تھا۔
حملے کی نشانہ بننے والی دو لڑکیوں کی والدہ ناز بی بی کا کہنا ہے: ’’ہماری بلوچ روایات کے مطابق، انہوں نے بڑی چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور چہرے بھی ڈھانپ رکھے تھے۔ اس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہونے سے بچ گئیں۔‘‘
حملہ آوروں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’’میں تو یہ درخواست کر سکتی ہوں کہ انہیں خواتین کے ساتھ اس ظالمانہ طریقے سے پیش نہیں آنا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں تیزاب کے حملوں کا نشانہ بننے والی بیشتر خواتین اپنے حملہ آور کو جانتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر حملوں کا تعلق کسی خاندانی تنازعے سے ہوتا ہے۔ لیکن بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات میں متاثرہ خواتین کا اپنے حملہ آوروں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی وجہ سے ان حملوں کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ ان کا صوبے میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پسندی سے تعلق ہے۔
پسماندہ لیکن قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں ایک عرصے سے مسلح علیحدگی پسند بھی سرگرم ہیں اور بائیں بازو کے کٹر سیکولر عناصر اس کا حصہ ہیں۔ یہ حلقہ کمیونسٹ ہستیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے جن میں چے گویرا بھی شامل ہیں۔
علیحدگی پسندوں کا کہنا ہے کہ خواتین پر یہ حملے صوبے کی قدرتی دولت میں زیادہ سے زیادہ حصے کے لیے لڑنے والے باغیوں اور ریاست کے حمایت یافتہ اسلام پسندوں کے درمیان نظریاتی جنگ میں ایک نیا محاذ ہیں۔
صوبائی خودمختاری کے لیے آواز اٹھانے والی بلوچ نیشنل پارٹی کے نائب صدر جہانزیب جمال دینی کا کہنا ہے: ’’ان غیرانسانی کارروائیوں کا مقصد خوف کی فضا پیدا کرتے ہوئے خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور زندگی کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی پہلوؤں کا حصہ بننے سے روکنا ہے۔‘‘
اگرچہ پولیس ابھی تک یہی کہہ رہی ہے کہ یہ حملے خاندانی تنازعے کا نتیجہ ہیں تاہم ایک متاثرہ خاتون کے بھائی محمد منظور کے مطابق حملہ آوروں کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا: ’’وہ موٹر سائیکل پر کھلے عام گھوم رہے ہیں اور مقامی لوگوں نے انہیں دیکھا ہے۔‘‘
کوئٹہ کے ضلع سیراب میں اسلام پسند گروپ اہل سنت و جماعت کے اثر و رسوخ میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں میں سے ایک اسی علاقے میں ہوا۔ عرب لباس زیب تن کیے ہوئے اسلام پسند اس علاقے میں خودکار ہتھیار لیے بے خوف دندنداتے پھرتے ہیں۔ اس سے بہت سے لوگ یہ تاثر قائم کرنے پر مبجور ہوتے ہیں کہ انہیں ریاستی حمایت حاصل ہے۔
اس علاقے کے ایک رہائشی نے کہا: ’’اہل سنت و جماعت درجنوں مسلح افراد کے ذریعے اس علاقے کو کنٹرول کر رہی ہے۔‘‘
اس نے بتایا کہ ان کی موجودگی سے لوگ خوفزدہ ہیں اور اپنی خواتین کو گھروں پر رکھتے ہیں۔ تاہم اس گروپ کا کہنا ہے کہ ان کے یہ خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔ بلوچستان میں اس جماعت کے رہنما رمضان مینگل نے کہا: ’’ہم ان حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں لکھا ہے کہ بلوچستان گزشتہ کچھ سالوں میں باقاعدگی سے انتہاپسندی میں دھنستا چلا گیا ہے۔ اس اخبار کے مطابق: ’’معاشرے پر انتہاپسند مذہبی گروپوں کے مہلک اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جو مستقل مزاجی سے خواتین کی نقل و حرکت کو محدود کرنے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘