1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ

3 فروری 2022

عسکریت پسندوں نے بدھ کی رات کو بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے دو کیمپوں پر حملے کر دیے۔ پاکستانی وزیر داخلہ نے جمعرات کو بتایا کہ حملوں میں اب تک چار فوجی اور 15حملہ آور ہلاک ہو چکے ہیں۔ آپریشن اب بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/46RsF
(علامتی تصویر)
(علامتی تصویر)تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ گذشتہ رات دیر گئے عسکریت پسندوں نے نوشکی اور پنجگور میں بڑا حملہ کیا جسے سکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا، "نوشکی میں نو دہشت گرد مارے گئے ہیں جبکہ فوج کے چار جوان شہید ہوئے ہیں جبکہ پنجگور میں چھ دہشت گرد مارے گئے۔"

شیخ رشید کے مطابق، "پنجگور اور نوشکی، دونوں جگہ سے دہشت گردوں کو باہر دھکیل دیا گیا اور فوج نے اپنی روایات زندہ رکھیں۔ تھوڑے سے چار یا پانچ لوگ پنجگور میں اس وقت بھی گھیرے میں ہیں جن کو جلد چھڑا لیا جائے گا۔" انہوں نے تاہم اس کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا، "ہم بلوچستان کے علاقوں، پنجگور اور نوشکی میں قائم فوجی کیمپوں پر دہشت گردوں کے حملے پسپا کرنے والے اپنے جری جوانوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ قوم ہماری حفاظت کے لیے قربانیاں دینے والی سکیورٹی فورسز کے پیچھے متحد ہے۔"

یاد رہے کہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے گذشتہ شب جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ پاکستانی صوبے بلوچستان کے پنجگور میں دہشت گردوں نے دو مقامات سے فرنٹیئر کور(ایف سی) کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن بروقت کارروائی سے انھیں ناکام بنا دیا گیا تھا۔بیان میں کہا گیا تھا کہ ان حملوں میں ایک فوجی اور چار انتہاپسند ہلاک ہوگئے۔

 بلوچ لبریشن آرمی نے ذمہ داری قبول کی

ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔ میڈیا کو بھیجے گئے ایک ای میل میں کالعدم تنظیم کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ حملے اس کے مجید بریگیڈنے کیے۔

بی ایل اے نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے،" نوشکی اور پنجگور میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا اور خودکش بمبار کامیابی سے سکیورٹی فورسز کے کیمپوں میں داخل ہوگئے،جن میں درجنوں ہلاک ہوگئے۔"

عینی شاہدین کا کیا کہنا ہے

نوشکی میں عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے ایک بڑے دھماکے کی آواز سنی۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ قریب میں واقع پولیس اسٹیشن، سول ہسپتال اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کی عمارتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے بتایاکہ ایف سی کے ہیڈکوارٹر کے اندر چھوٹے دھماکے کی آواز بھی سنائی دی اور اس کے ساتھ ہی شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو دیر تک جاری رہا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ دھماکوں اور فائرنگ کے باعث ایف سی کے ہیڈکوارٹر کے گردونواح کے علاقوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔

بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ بم دھماکے اور فائرنگ کے چند گھنٹے بعد انھوں نے شہر کی فضا میں دو ہیلی کاپٹروں کو بھی پرواز کرتے دیکھا۔

ایف سی ہیڈکوارٹر میں دھماکے کے بعد ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر سے جو تصاویر سوشل میڈیا پر آئیں ہیں ان میں نظر آرہا ہے کہ قرب و جوار کے دفاتر اور گھروں کو دھماکے سے نقصان پہنچا۔

(علامتی تصویر)
(علامتی تصویر)تصویر: DW/Abdul Ghani Kakar

ایک ہفتے کے دوران متعدد دھماکے

خیال رہے کہ 28جنوری کو ڈیرہ بگتی میں سوئی کے علاقے مٹ مووندرانی میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں چار افراد ہلاک اور دیگر 10زخمی ہوگئے تھے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ انتہاپسندوں نے 25اور 26جنوری کی درمیانی شب کو بلوچستان کے کیچ میں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر فائرنگ کرکے 10سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔ اس حملے میں ایک انتہاپسند بھی مارا گیا تھا۔ اس حملے میں متعدد اہلکار زخمی بھی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل 14 دسمبر کو پاکستان اور ایران کی سرحد کے قریب قائم چیک پوسٹ پر انتہاپسندوں کے حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگیا تھا۔جبکہ 13نومبر کو بلوچستان کے ہوشاب علاقے میں کارروائی کے دوران دو فوجی مار ے گئے تھے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں