بلوچستان ميں طاقت کا استعمال خطرناک ہو گا، تجزيہ کار
30 اگست 2024ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد، لاہور، پشاور، کراچی، کوئٹہ اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے کئی ماہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہمیشہ طاقت کے استعمال کی وجہ سے حالات خراب ہوئے ہيں۔طاقت کا استعمال رد عمل پیدا کرتا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ صاف نیت کے ساتھ اعتماد سازی کے اقدامات کرتے ہوئے بات چیت کی کوشش کی جائے۔ طاقت کے استعمال سے کسی فریق کو فائدہ نہیں ہو گا۔
ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ پہلے تمام فریق ہتھیار پھينک کر تشدد ترک کريں۔اور پھر مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے لاپتا افراد کی بازیابی سمیت دیگر معاملات پر با معنی بات چيت ہو۔ امتیاز عالم ملک کی جمہوری تنظیموں کے ساتھ مل کر اس قومی مسئلے کے حل کے ليے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جا رہے ہیں لیکن ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ليے رابطوں کا آغاز تو کر دیا گيا ہے لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کا رویہ حوصلہ افزا نہیں ہے جبکہ پی ٹی آئی بھی تذبذب کا شکار ہے۔
امتیاز عالم نے وزیر اعظم شہباز شریف کے کوئٹہ دورے کے دوران دیے گئے حالیہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں طرف سے سخت موقف اپنانے سے صورتحال میں بہتری کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی طرف سے پر امن جدوجہد کے حق میں اور تشدد کے خلاف بیان دینے کو سراہا اور کہا کہ صورتحال کی بہتری کے ليے ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اور بلوچ یک جہتی کمیٹی سے حکومت کے مذاکرات شروع ہونا چاہئیں۔ ''بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اتنے بڑے رقبے کو نہ تو مزاحمت کار کہیں لے کر جا سکتے ہیں اور نہ ہی اتنے بڑے صوبے کو طاقت کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اگر دونوں فریق بات چیت کی طرف نہ آئے تو پھر خدشہ ہے کہ مارا ماری ہی اس علاقے کا مقدر بنی رہے گی۔‘‘
بلوچستان کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز ماہر رفیع اللہ کاکڑ نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ بدلتے ہوئے حالات میں بلوچستان کے بحران کو حل کرنے کے ليے روایتی طریقے اب کارگر نہیں ہو سکیں گے۔ ''ہمیں سمجھنا ہو گا کہ آج کے بلوچستان کی مکمل آبادی کا پچھتر فیصد ان نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی عمریں تیس سال سے کم ہیں۔ یہ نوجوان پڑھے لکھے ہیں، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے انہیں بلوچ شناخت کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ دیا ہے اور وہ ایسے موقع پر اپنی جدوجہد کر رہے ہیں جب حکومت کی قانونی ساکھ بہت کمزور ہو چکی ہے اور اس تاثر میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام نوجوانوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔‘‘
رفیع اللہ کاکڑ نے مزيد کہا، ''حکومت بلوچوں سے معافی مانگے، اور ان سے بات چیت کے ليے سول، ملٹری قیادت کی رضامندی اور حمایت کے ساتھ ملک ميں بہتر ساکھ کے حامل نمایاں افراد کی ایک کمیٹی بنائی جائے اور سیاسی مفاہمت کے ليے اعتماد سازی کے اقدامات کرے۔ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جائے۔‘‘
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر حسن شہید سہروردی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ بلوچستان کے حالات میں بہتری کے ليے ضروری ہے کہ حالات کو صرف سیکورٹی کی نظر سے نہ دیکھا جائے، وہاں کے سیاسی فیصلوں اور سرکاری پالیسیوں میں عوام کے حقیقی نمائندوں سے مشاورت کی جائے اور صوبے کے وسائل پر صوبے کے آئینی حق کو تسلیم کیا جائے۔ '' میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت بھی ہو رہی ہے اور ہمارا دشمن بلوچستان کی صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن یہ بھی تو جائزہ لیں کہ بیرونی ہاتھ پنجاب یا دیگر صوبوں میں ایسے مسائل کیوں نہیں پیدا کر رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے بلوچستان میں ایک ایسا ماحول بنا دیا ہے جس سے عوام میں بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اسے دور کرنے کے ليے حکومت عوام پر اپنا اعتماد بحال کرے اور ان کی بات سنے تاکہ بیرونی ہاتھ کو یہاں پذیرائی نہ مل سکے۔‘‘
ملک دشمنوں سے کوئی بات نہیں ہوگی، شہباز شریف
بلوچستان: مسلح حملوں اور جھڑپوں میں کم ازکم 51 افراد ہلاک
’بلوچستان میں صورت حال صرف ایک دن میں تو خراب نہیں ہوئی‘
حسن شہید سہروردی کے بقول بلوچستان کے لوگوں کو منصفانہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیےاور ان کے احساس محرومی کو ختم کیا جانا چاہیے۔ ان کے نزدیک یہ بھی ایک افسوسناک امر ہے کہ بلوچستان میں سیاسی عمل پر یقین رکھنے والی جماعتیں سائڈ لائن کر دی گئی ہیں، میڈیا اور سول سوسائٹی، جو حکومت اور احتجاج کرنے والے بلوچوں کے درمیان ایک بفر زون کا کردار ادا کر سکتے تھے، وہ بھی بہت کمزور ہو گئے ہیں۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز قانون دان علی احمد کرد نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ بلوچستان میں حالات خراب ہیں۔ ان کے بقول بلوچستان کے معاملے کو اگر طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
ان کے خیال میں صورتحال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب بلوچستان کی خواتین اور بچیاں شدید سردی میں احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچیں تو سرد رات میں ان پر واٹر کینن سے ٹھنڈا پانی پھینکا گیا۔ ''اگر کوئی ان کے سر پر ہاتھ رکھتا، انہيں چائے پلاتا اور ہمدردی کے دو بول بول کر ان کے مسائل کے حل کا وعدہ کرتا، تو ان کے احتجاج میں کوئی جان باقی نہ رہتی۔‘‘
علی احمد کرد کا موقف ہے کہ بلوچستان کی حکومت عوام کا اعتماد نہیں رکھتی۔ ''الیکشن خرید و فروخت اور دھاندلی کا شکار ہو جائیں تو حکومت کا عوام سے رابطہ کٹ جاتا ہے۔ ایسے میں حکومت کی بات کون مانے گا؟ ذرا فوٹیج نکال کر دیکھیں کہ بلوچستان کے بارے میں ایپکس کمیٹی میں بیٹھ کر فیصلہ کرنے والوں میں کتنے لوگ بلوچستان سے تھے اور انہیں بلوچ عوام کا کتنا اعتماد حاصل تھا۔ بلوچستان کے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جانا چاہیے۔ کہا گیا کہ نگران حکومت کی وزارت عظمیٰ بلوچستان کو دی گئی۔ لیکن پتا تو کریں کہ نگران وزیر اعظم کو بلوچ عوام کی کتنی حمایت حاصل تھی اور کیا وہ اب بھی بلوچستان کی گلیوں اور بازاروں میں آزادانہ گھوم سکتے ہیں۔‘‘
علی احمد کرد کا خیال ہے کہ دو ؑعظیم جنگوں کے بعد بھی فریقین کو میز پر بیٹھ کر معاملات سلجھانا پڑے تھے۔ اس ليے بلوچستان کی صورتحال کی بہتری کے ليے آخر کار سب کو بات چیت کی طرف ہی آنا ہو گا۔
کراچی یونیورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے ليے سب سے پہلے بلوچ علاقوں سے سیکورٹی اہلکاروں کی موجودگی کو کم کرنا ہو گا تاکہ اس تاثر کر تقویت ملے کہ معاملات کو سیکورٹی اداے نہیں چلا رہے ہیں۔ اسی طرح پولیس کو بلوچستان میں امپاور کرنا ہو گا۔ سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کے تحفظات کو دور کرنا ہو گا۔ لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنا ہو گا اور پاکستان کی وفاقی حکومت کو سنجیدگی کے ساتھ بلوچستان کو اپنانا پڑے گا۔
ڈاکٹر مونس احمر کے بقول طاقت کا استعمال ردعمل پیدا کرتا ہے۔ اس ليے جو لوگ کسی انتہا پسندی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف تو کارروائی ہونی چاہیے لیکن عوام کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ ''اگر حکومت بلوچستان میں اصلاحات کرے، کرپشن کا خاتمہ کرے، اسمگلنگ کو روکے اور بلوچوں کو اقلیت میں بدلنے جیسی شکایات کا جائزہ لے تو صورتحال میں بہتری آ سکتی ہے۔‘‘
سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ سب سے پہلے ان علاقوں میں جہاں علیحدگی پسندوں کی احتجاجی تحریک کا زور ہے، وہاں ایک سروے کرکے دیکھ لیں کہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں وہاں عام آدمی کی زندگی میں کیا بہتری آئی ہے۔ گوادر کا بھی جائزہ لینا چاہيے کہ وہاں کی ترقی سے عام آدمی کو کیا ملا۔ ان سوالات کے جوابات سے آپ کو ساری کہانی سمجھ آ جائے گی۔ ان کے بقول ریاست اور عوام میں بداعتمادی کی خلیج حائل ہے، لیڈرشپ اب سرداروں اور سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں رہی۔ حسن عسکری کے مطابق حکومت کو احتجاجی نوجوانوں کو مطمئن کرنا ہو گا۔ انہیں سیاسی عمل میں شامل کرنا ہو گا اور ان کے تحفظات دور کرنا ہوں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اب یہ مسئلہ رسمی بیانات اور پرانی حکمت عملی سے حل نہیں ہو گا، اس کے ليے ایک کثیر الجہتی پالیسی اپنانا ہو گی۔