بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال مزید مخدوش
7 فروری 2024پشتون اکثریتی اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں ہونے والے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری اب تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ ماضی میں تاہم ان علاقوں میں ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری پاکستان طالبان کی کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی قبول کرتی رہی ہے۔
بلوچستان میں دو بم دھماکے، کم از کم 24 افراد ہلاک
پاکستان الیکشن: فیصلے کی گھڑی قریب آن پہنچی
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر پر عسکریت پسند 50 سے زائد حملے کر چکے ہیں۔ ان حملوں میں کئی سیاسی کارکن ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں۔
عام انتخابات سے قبل بلوچستان کے پشتون علاقے بھی بدامنی کی لپیٹ میں
پشین میں تعینات ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار، مزمل جاوید کہتے ہیں کہ بے گناہ شہریوں پر بموں سے حملے انتخابی عمل کو ثبوتاژ کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے جسے حکومت کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''پشین میں امن آمان کی صورتحال صوبے کے دیگر حصوں کی نسبت ہمیشہ بہت بہتر رہی ہے ... عسکریت پسندوں نے سابق صوبائی وزیر اور آزاد امیدوار اسفندیار کاکڑ کے انتخابی دفتر کے باہر موجود لوگوں کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ امن دشمن قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ عام انتخابات پرامن طورپر منعقد ہوں اس لیے لوگوں کو خوف وہراس کا شکار کیا جا رہا ہے۔‘‘
مزمل جاوید کا کہنا تھا کہ دہشت گرد صوبے کے فالٹ لائنز کو نشانہ بنارہے ہیں اور اچانک بلوچ اکثریتی علاقوں کے بعد اب پشتون علاقوں میں یہ شورش سامنے آئی ہے: ''بلوچستان میں پہلے سے ہی ہائی الرٹ ہے اور انتخابات کے موقع پر امن و امان کی بحالی کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔‘‘
بم دھماکوں کے بعد حکومت بلوچستان نے صوبے میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی کہتے ہیں قلعہ سیف اللہ اور خانوزئی میں ہونے والے حملوں میں وہی عناصر ملوث ہیں جنہوں نے مچھ میں گزشتہ دنوں حملے کیے تھے ۔
بم دھماکوں سے متعلق کوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ملک دشمن عناصر بلوچستان میں بد امنی پھیلا کر عام انتخابات میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر یہاں صورتحال خراب ہوگی تو یقینا اس سے انتخابات میں ووٹرز کے ٹرن آؤٹ پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ خانوزئی اور قلعہ سیف اللہ میں بم دھماکوں کے بعد تمام شواہد حاصل کرلیے گئے ہیں جو عناصر ان حملوں میں ملوث ہیں انہیں جلد گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔‘‘
جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ انتخابات کے موقع پر بلوچستان میں منظم منصوبے کے تحت بدامنی پھیلائی جا رہی ہے تاکہ ووٹرز کو خوف وہراس کا شکار بنایا جاسکے ۔
قیام امن کی مخدوش صورتحال اور دھاندلی کے بڑھتے ہوئے خدشات
کوئٹہ میں مقیم سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار، ندیم احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیمیں امن وامان کی صورتحال سبوتاژ کرکے غیریقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عام انتخابات کے موقع پر قیام امن کی اس مخدوش صورتحال سے انتخابات میں دھاندلی کےخدشات اور بڑھ گئے ہیں: ''میرے خیال میں بعض حلقے سرے سے یہ چاہتے ہی نہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات کے انعقادکو حکومت یقینی بنائے۔ انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے جو تحفظات سامنے آئے ہیں انہیں اگر دور نہ کیا گیا تو صورتحال مزید شکوک وشبہات کاشکار ہوجائے گی۔‘‘
سیاسی رہنماؤں اور ان کے دفاتر پر بلوچ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملے
بلوچستان کی بلوچ عسکریت پسند کالعدم تنظیمیں بھی گزشتہ تین ہفتوں سے مسلسل صوبے کے عوام کو انتخابی عمل سے دور رہنے کی دھمکیاں دیتی رہی ہیں۔ کالعدم تنظیمیں کہتی ہیں کہ بلوچستان میں انتخابات کی آڑ میں من پسند لوگوں کو کامیاب کرا کر پاکستانی ریاست، اس صوبے میں اپنے مخصوص نظام کو مسلط کرنا چاہتی ہے۔
چند یوم قبل بلوچ لبریشن آرمی نامی کالعدم تنظیم نے انتخابی دفاتر پر ہونے والے کئی حملو ں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف ان کے حملوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے 2018 میں بھی عام انتخابات کے موقع پر کئی حملے کیے تھے اور عوام کو انتخابات سے دور رہنے کی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔