بلوچستان میں بم دھماکا: دو بچے ہلاک، 16 افراد زخمی
24 اگست 2024پولیس حکام کے مطابق بلوچستان کے ضلع پشین میں ایک دھماکےکے نتیجے میں کم از کم دو بچے ہلاک جبکہ دیگر 16 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
شہر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منظور بلیدی کا کہنا تھا، ''ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں میں سات پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ دھماکا پشین میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب ہوا۔ ایک دوسرے پولیس افسر مجیب الرحمان کا کہنا تھا، ''دھماکہ خیز مواد ایک موٹر سائیکل میں نصب کیا گیا تھا، جو قریبی علاقے میں پارک کی گئی تھی اور قریب سے گزرنے والے دو بچے موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘‘
بلوچستان میں ہونے والے مظاہرے ’منفرد‘ کیوں ہیں؟
وزیر اعظم شہباز شریف نے دھماکے میں کمسن بچوں کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں اور دیگر لوگوں کی صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
مجیب الرحمان کا مزید کا کہنا تھا کہ تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے اور زخمی ہونے والوں میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔ ہلاک ہونے والے دونوں بچوں کی لاشیں قریبی ہسپتال منتقل کر دی گئی ہیں۔
صوبہ بلوچستان کے ضلع پشین میں ہونے والے اس حملے کی فوری طور پر کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم اس شک کی نگاہیں بلوچستان کے علیحدگی پسند گروہوں کی جانب ہیں، جنہوں نے حالیہ مہینوں میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں بم دھماکے کی مذمت کی اور مقتول بچوں کے لیے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کرنے والے ''انسان کہلانے کے لائق نہیں‘‘ ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا، ''دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے تک جنگ جاری رکھی جائے گے۔‘‘
اربوں ڈالر مالیت کے بڑے منصوبے کے باوجود بلوچستان پاکستان کا سب سے غریب اور سب سے کم آبادی والا صوبہ ہے۔ قدرتی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا الزام عائد کرنے والے علیحدگی پسند گروہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد حکومت اگرچہ صوبہ بلوچستان میں شورش کو ختم کرنے کے لیے عسکری کارروائیاں بھی کرتی رہتی ہے لیکن وہاں سکیورٹی کی حالت مخدوش ہی بتائی جاتی ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند کئی مرتبہ پاکستان میں چینی مفادات کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔
ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق 248 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ا ا / ش ر (اے پی، روئٹرز، ڈی ڈبلیو)