بلوچستان میں سوئس جوڑا اغوا
2 جولائی 2011سرکاری عہدیدار سہیل الرحمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا کہ یہ سوئس جوڑا جمعے کو مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے شہر میں داخل ہوا اور وہاں ایک پولیس چوکی پر خود کو رجسٹرڈ کروایا۔’’ان کی گاڑی لورالائی کے قریب مینارا کے مقام پر لاوارث ملی۔‘‘
واضح رہے کہ رقبے کے اعتبار سے سب بڑے تاہم سب سے غریب صوبے بلوچستان میں طالبان اور بلوچ علیحدگی پسند، دونوں ہی سرگرم ہیں جبکہ مینارا وہ مقام ہے، جہاں بہت سے افغان مہاجرین قیام پذیر ہیں۔ سہیل رحمان نے اس واقعے کے حوالے سے مزید تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔
بلوچستان میں قوم پرست جماعتیں اسلام آباد حکومت سے مطالبہ کرتی آئی ہیں کہ وہاں بلوچوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی جائے۔ ان جماعتوں کا الزام ہے کہ صوبے کے معدنی ذخائر کا بہت ہی کم حصہ صوبے پر خرچ کیا جاتا ہے۔
صوبہ بلوچستان میں اغواء کی وارداتوں میں گزشتہ کچھ برسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ خصوصاﹰ صوبے کے شمال مغربی حصے میں سرگرم اسلامی انتہاپسندوں کے ہاتھوں بہت سے غیرملکی یرغمال بنائے گئے ہیں۔
فروری سن 2009ء میں اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے کے ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کو بھی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اغوا کیا گیا تھا جبکہ حکومتی کوششوں کے نتیجے میں انہیں دو ماہ بعد رہائی مل پائی تھی۔
دوسری جانب بلوچ علیحدگی پسندوں پر بھی الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے اغوا اور قتل میں ملوث رہے ہیں۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد