بلوچستان میں فوجی کارروئی، متعدد عسکریت پسند ہلاک
5 مئی 2014فوجی بیان کے مطابق اس دوران بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ اس کاررروائی میں فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے دوران پانچ سیکورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
پنجگور کے شمال مشرق میں واقع نواحی علاقوں میں یہ آپریشن تاحال جاری ہے اور اب تک حکام کے مطابق اس کارروائی میں جو مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں، ان کا تعلق بلوچستان کی آزادی کے لئے برسر پیکار کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ یونائٹڈ لبریشن فرنٹ بی یو ایل ایف اور لشکر بلوچستان سے ہے۔ صوبائی محکمہء داخلہ کے مطابق آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے عسکریت پسند مسافر ٹرینوں، آبادکاروں، سیکورٹی اہلکاروں اور گزشتہ سال آوران میں آنے والے زلزلے سے متاثرہ ان لوگوں پر حملوں میں ملوث تھے، جو وہاں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے۔ ان حملوں کے دوران ایک درجن سے زائد افراد ہلا ک ہوئے تھے اور قومی تنصیبات کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔
صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے مطابق عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی پنجگور، تربت اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بھی کی جائے گے اور ان تمام فراری کیمپوں کا خاتمہ کیا جائے گا، جہاں حملہ آور فرار ہو کر چھپ جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مذید کہنا تھا، ’’یہ جتنے بھی کیمپ آپریشن کے دوران تباہ کئے گئے ہیں، یہ وہ کیمپ تھے جہاں عسکریت پسند روپوش تھے اور وہاں سے مسافر ٹرینوں، سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے ہوتے تھے، جب دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں گی، حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا جائے گا، بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جائے، تو ہم صوبے میں کسی فراری کیمپ کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ کارروائی آئندہ بھی جاری رہے گی۔ ‘‘
ضلع پنجگور میں جاری اس آپریشن کے دوران بڑے پیمانے پر جدید خودکار اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے جب کہ تباہ کئے گئے فراری کیمپوں سےعسکریت پسندوں کے بعض دیگر کیمپوں کے نقشے اور دیگر حساس دستاویزات بھی برآمد ہوئی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے بقول بلوچ عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی اس حالیہ کارروائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں آزادی پسند کالعدم مذاحمتی تنظیموں نے مذاکرات کے حوالے سے حکومتی پیشکش کا اب تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ بلوچستان میں سیکورٹی امور کے ماہر ندیم خان کا اس حوالے سے موقف کچھ یوں تھا، ’کچھ عرصہ سے حکومت کی جانب سے خاموشی تھی اورحکومت اس بات پر غور کر رہی تھی کہ شاید مز احمت کار مذاکرات کے لئے راضی ہوجائیں اور ہتھیار پھینک دیں لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے اس پر اب تک آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس لئے میرے خیال میں حکومت کے پاس آپریشن کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ ‘
وا ضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ضلع قلات میں بھی سیکورٹی فورسز نے کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا تھا اور اس کے نتیجے میں چالیس سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔