بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور ان کے مزدور
کان کنی کو 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم بدلتے وقت اور اس پیشے سے منسلک خطرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر اس جانب سے توجہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی کئی مقامات پر کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے دور
بلوچستان کے علاقے سورن رینج میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک بخت زمین کا تعلق سوات سے ہے۔ وہ چھ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے اور انہی پہاڑوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے میلوں دور زندگی بسر کرتا ہے
کان کنی اور تعلیم ساتھ ساتھ
فضل کریم ایک نوجوان کان کن ہے، سخت حالات میں وہ دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور رات میں کان میں کام کرتا ہے، مائیکرو بائیالوجی کا یہ طالب علم یہاں کے کان کنوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے۔
تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی
کان کنوں کی اس آبادی میں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی رہ رہے ہیں۔ صالحہ اور صنم دو بہنیں ہیں اور یہاں اسکول یا مدرسہ نہ ہونے کے سبب خاصی اداس رہتی ہیں۔
غلیل سے چڑیا کا شکار
بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کان کنوں کے بچے دل بہلانے کے لیے مختلف کھیل کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ یہ بچے غلیل سے چڑیا کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
ایک عمر بیت گئی
67 سالہ عبد الخالق گزشتہ قریب چار عشروں سے یہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا عبدالخالق کا اب دنیا میں کوئی نہیں رہا اور ان کے شب و روز یہیں گزارتے ہیں۔
کان کنوں کی جانوں کو دوسرا خطرہ
ایک مزدور کان سے نکلنے والے فضلے کو پہاڑی ڈھلان سے نیچے پھینک رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کے سبب اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم کان کن رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلی گئی ہے۔
زندگی اور موت کوئلے کی کانوں کے پاس
عشروں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کان کنی کرنے والے مزدور موت کے بعد بھی کمزور اقتصادی حالات کے سبب اپنے آبائی علاقوں میں نہیں لے جائے جاتے اور یہی دفنا دیے جاتے ہیں۔