1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں ہندو اقلیت نقل مکانی پر مجبور

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ19 اگست 2014

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں اقلیتی ہندو کمیونٹی کے لوگوں نے بد امنی اور امن و امان کی گھمبیر صورتحال کی وجہ سے صوبے سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cx3J
تصویر: AP

اب تک پانچ سو سے زائد ہندو خاندانوں نے ملک کے مختلف حصوں اور ہندوستان نقل مکانی کی ہے۔ ہندو کمیونٹی کے افراد پر بڑھتے ہوئے پر تشدد حملوں کے خلاف کوئٹہ میں آج ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں ہندو کمیونٹی کے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور ہندو کمیونٹی پر ہونے والے دیگر پر تشدد حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مغربی علاقے بروری روڈ پر کیا گیا۔ مظاہرے کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان میں ہندو اقلیت پر ہونے والے حملوں کے خلاف مختلف نعرے درج تھے۔

بلو چستان میں ہندو لڑکیوں کی پسند کی شادی اور مذہب کی تبدیلی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں
بلو چستان میں ہندو لڑکیوں کی پسند کی شادی اور مذہب کی تبدیلی کے واقعات بھی پیش آئے ہیںتصویر: AP

حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی رکن سنتوش کمار کے بقول بلوچستان میں ہندو اقلیتوں پر ہونے والے حملوں میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’’ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ہماری کمیونٹی کے لوگوں کو تاوان کے لیے اغواء کیا جا رہا ہے، سب عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ جب سے یہ حالات خراب ہوئے ہیں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ پانچ، سات سو کے قریب خاندان یہاں سے نقل مکانی کر کے اندرون ملک اور ہندوستان جا چکے ہیں۔‘‘

سنتوش کمار کے بقول بد امنی کی صورتحال اتنی گھمبیر کہ ہے وہ بحیثیت رکن صوبائی اسمبلی بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں: ’’مجھے خود قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ رکن اسمبلی ہونے کے باوجود مجھے یہاں کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ عدم تحفظ کے باعث اسمبلی اجلاس میں شرکت تک نہیں کر سکتا۔ اس حالت میں عوام کو کیا تحفظ فراہم کروا سکتا ہوں، جب میں خود محفوظ نہیں ہوں۔ بس اللہ سے ہی تحفظ کی امید ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘

سنتوش کمار نے بتایا کہ بلو چستان میں ہندو لڑکیوں کی پسند کی شادی اور مذہب کی تبدیلی کے واقعات بھی پیش آئے ہیں: ’’زبردستی ہماری لڑکیوں کواغواء کر لیا جاتا ہے اور دس دنوں کے بعد انہیں کورٹ میں پیش کر دیا جاتا ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہو گئی ہے۔ کوئی لڑکی اگر ڈائریکٹ کورٹ جائے تو تب یہ مانا جا سکتا ہے کہ لڑکی نے خود اسلام قبول کیا ہے۔ یا اگر کوئی شخص بھی ایسی کسی لڑکی ساتھ عدالت جائے تو یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے، یہاں تو لڑکی کو عدالت میں مسلمان کرا کر اس سے شادی کرلی جاتی ہے۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں ہندو اقلیت کے مسائل جاننے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے سابق دور حکومت میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی تھی جس میں ہندو اقلیتی پنچائتوں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا گیا تھا لیکن اب تک یہ کمیٹی ہندوؤں کے مسائل کے حل کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا سکی ہے۔