بلوچستان: نجی جیل میں قید ایک ماں کا دو بچوں سمیت قتل
22 فروری 2023خان محمد مری نامی شخص کی بیوی اوردو بیٹوں کوقتل کرنے کے بعد لاشیں ایک کنویں میں پھینک دی گئی تھیں۔ چند یوم قبل مقتولہ کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں اس خاتون نے قران پاک ہاتھ میں لے کرحکومت سے اپنے بیٹوں کی نجی جیل سے رہائی کی اپیل کی تھی۔
صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں ان لاشوں کے ہمراہ احتجاج کرنے والے افراد نے تہرے قتل کا الزام صوبائی وزیرعبدالرحمٰن کیتھران پر عائد کیا ہے۔ مظاہرین کہتے ہیں کہ مقتولین کو صوبائی وزیر نے مبینہ طورپر اپنی نجی جیل میں کئی سالوں سے قید کر رکھا تھا۔
گوادر میں حق دو مظاہرہ، ہزاروں افراد سڑکوں پر
بلوچستان میں داعش کے خلاف بڑا آپریشن
کوئٹہ کے ریڈ زون میں جاری احتجاجی دھرنے میں شریک مری اتحاد کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر مری کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت سانحہ بارکھان کے حوالے سے حقائق مسخ کر رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''سردار عبدالرحمٰن کے مبینہ عقوبت خانے میں ہونے والے انسانیت سوز واقعات پر حکومت نے ہمیشہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ نجی جیلوں میں قید افراد کی بازیابی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔‘‘
جہانگیر مری نے دعویٰ کیا محمد خان مری کے پانچ بیٹے اب بھی عبدالرحمٰن کیتھران کے مبینہ عقوبت خانے میں قید ہیں۔ انہوں نے کہا، ''بلوچستان پولیس حقائق پر جان بوجھ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتنے بڑے سانحے کے باجود پولیس نے اب تک نامزد ملزمان کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ صوبائی وزیر کو مقدمے سے نکانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
'سرکاری سرپرستی کے بغیر نجی جیلیں اور اسلحہ کی نمائش ناممکن‘
کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں اسلحہ بردار نجی ملیشیاء کے افراد دن بھر گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پابندی کے باوجود حساس علاقوں سمیت دیگرعلاقوں میں ہونے والے اسلحے کی نمائش کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے کئی بار احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن خدیجہ بلوچ کہتی ہیں کہ سرکاری سرپرستی کے بغیرصوبے میں نجی جیلوں کا قیام اور اسلحہ کی نمائش نا ممکن ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کوئی نئی بات نہیں۔ حالیہ واقعات نے ریاستی بے حسی سے پردہ اٹھایا ہے۔ کیا حکومت اس قدر کمزور ہے کہ اپنے شہریوں کو تحفظ بھی فراہم نہیں کرسکتی؟ انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان میں قانون کی عملداری صرف کتابوں میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ عملی طور پر اس کا کوئی مظاہرہ سامنے نہیں آتا۔ اگر قانون پرعمل درآمد کیا جاتا تو یہاں مسلح جھتے کیوں اتنی آسانی کے ساتھ گھومتے ہوئے دکھائی دیتے؟ انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والے افراد کو آئے روز لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘‘
نجی جیلوں میں قید افراد کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں، پولیس
بلوچستان پولیس کے ترجمان کہتے ہیں کہ سانحہ بارکھان میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کوئٹہ میں جاری کیے گئے ایک بیان میں پولیس ترجمان نے واضح کیا کہ نجی جیلوں میں قید افراد کی بازیابی کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے با اثر شخصیات کی نجی جیلوں سے متعلق اطلاعات پر کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی چاپے مارے ہیں۔ ان چھاپوں کے دوران ایک با اثر شخص کے بیٹے سمیت دو افراد کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ ان فراد سے خصوصی ٹیم تحقیقات کر رہی ہے۔
کوئٹہ میں مقیم سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ندیم احمد کہتے ہیں کہ قانون کی عمل داری یقینی بنانے کے لیےحکومت کو ایک نتیجہ خیز پلان مرتب کرنا ہوگا: ''بلوچستان کی صورتحال دن بدن تشویشناک شکل اس لیے اختیارکر رہی ہے کیونکہ یہاں حکومتی رٹ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بااثر افراد خود کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں...جہاں تک سانحہ بارکھان کا تعلق ہے تو اس میں بھی ذمہ داری براہ راست صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر متاثرہ خاتوں کی اپیل پر متعلقہ پولیس کارروائی کرتی تو آج حالات یہ نہ ہوتے۔‘‘
ندیم احمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں نجی جیلوں کے خلاف سامنے آنے والی شکایات حکومت ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی ہے: ''با اثر لوگ درجنوں مسلح محافظوں سمیت گھومتے ہوئے جب قانون کی عمل داری چیلنج کرتے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ یہ مسلح جتھےجن گاڑیوں میں گھومتے ہیں وہ بھی اکثر نان کسٹم پیڈ ہیں۔ غیرقانونی اور ممنوعہ اسلحہ کی نمائش سے صوبے میں قانون کی حکمرانی پر ہمیشہ سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔‘‘
پابندی کے باوجود غیر قانونی اسلحہ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار
بلوچستان میں غیرقانونی اسلحہ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں گھومنے والے اکثر افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں سرکاری راہداریوں جاری کی گئی ہیں۔ تاہم خفیہ اداروں اور محکمہ داخلہ کی جانب سے جو راہداریاں ماضی میں بلوچستان میں بااثر افراد کو جاری کی گئی تھیں ان پر بلوچستان ہائی کورٹ نے کچھ عرصہ قبل پابندی بھی عائد کی تھی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت اگر سنجیدگی سے صوبے میں عوامی شکایات پر توجہ نہیں دے گی تو آنے والے دنوں میں حالات مزید گھمبیر شکل اختیار سکتے ہیں۔