بلوچستان کا پراسرار ’شہر روغاں‘ یا گوندرانی کی غاریں
17 اکتوبر 2021غاروں کا یہ پر اسرار شہر ایران کے تاریخی شہر کندوان اور کپا دوکیا (ترکی ) سے مشابہہ ہے مگر ان دونوں شہروں کے بر عکس یہ پورا علاقہ غیر آباد ہے اور غاروں کے اندر بھی چمگادڑوں کے بسیروں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ بلند پہاڑوں میں گری یہ بستی کسی ہالی ووڈ کی فلم کا منظر جیسی ہے۔
بلوچستان کے پر فضا مقام مولا چٹوک میں گزاری تاروں بھری رات کا حال
شہر روغاں تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے؟
یہ کوئٹہ سے چھ سو دو کلو میٹر کی مسافت پر ہے جب کہ کراچی سے لسبیلا تک کا فاصلہ 218 کلومیٹر ہے۔ دریائے کرد کے ساتھ ساتھ تین میل کا سفر اور کچھ راستہ پیدل طے کر کے با آسانی گوندرانی کی غاروں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ راستے میں سب سے پہلے مائی گوندرانی کا مزار آتا ہے انہی کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام "گوندرانی " رکھا گیا ہے۔
لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ علاقے کے بزرگ افراد مائی گوندرانی کے متعلق بہت سی پر اسرار کہانیاں سناتے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی دور میں ان غاروں میں بھوت پریت اور شیطانی قوتوں کا بسیرا تھا۔ مائی گوندرانی نے ان قوتوں سے لڑ کر علاقے کو ان شیطانی قوتوں سے آزاد کروایا۔ اسے لئے آج بھی بڑی تعداد میں عقیدت مند ان کے مزار پر آتے ہیں۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مرجان کی چٹانیں
گوندرانی کے غاروں کی تاریخ کتنی قدیم ہے؟
اگرچہ بلوچستان میں مکران کے ساحل سے سبی اور اس سے آگے ژوب تک تقریبا تمام علاقے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں مگر ان پر ماہرین آثار قدیمہ نے بہت ہی کم تحقیق کی ہے۔
یہ تاریخی جگہ برٹش انڈین نیوی کے کمانڈر ٹی جی کارلس نے سن 1883 میں دریافت کی۔ مگر کارلس نے بھی محض سرسری معلومات فراہم کیں۔
اس حوالے سے بلوچستان یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے محقق وحید رزاق نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان غاروں کی تاریخ پر اب تک کوئی بھی تحقیق نہیں کی گئی بلکہ لسبیلہ کے پورے علاقے میں انتہائی نادر آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں کیونکہ کسی دور میں یہ علاقہ وسط ایشیاء کے اہم تجارتی راستوں میں شمار کیا جاتا تھا جو آگے سونمیانی کی بندرگاہ پر ختم ہوتا تھا۔ رزاق کہتے ہیں کہ تحقیق نہ ہونے کے باعث وثوق سے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ غار کتنے قدیم ہیں۔
غاروں کی خصوصیات کیا ہیں؟
پہلی دفعہ جب سیاح اس جگہ کا رخ کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے بڑے غاروں پر مشتمل ایک مکمل آبادی کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں مگر یہ پورا علاقہ آبادی نہ ہونے کے باعث انتہائی سنسان اور پر اسرار ہے۔ غاروں کے اندر تقریبا 51 مربع فٹ پر کمرے بنائے گئے جن کے باقاعدہ دروازے تھے اور ساتھ برآمدوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ کمروں کے اندر بھی پارٹیشن ہیں جو غالبا کچن یا باتھ روم کے طور پر استعمال کئے جاتے تھے۔
بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بگڑتی ہوئی صورتحال
بہت سے غار سرنگوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو بڑے خاندانوں کی رہائش کو ظاہر کرتے ہیں۔ جن چٹانوں میں یہ غار بنائے گئے ہیں ارضیاتی ماہرین کے مطابق وہ گارے نما مٹی، مختلف سائز کے گول پتھروں اور نمکیات کا مجموعہ ہیں۔ مگر ان پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
لسبیلہ کے رہائشی خلیل رونجھا نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ تاریخی اہمیت کا حامل یہ پورا علاقہ زبوں حالی کا شکار ہے، یہاں تک کہ مقام اور راستے کی نشاندہی کے لئے کوئی بورڈ تک نہیں لگایا گیا نہ ہی سیاحوں کی رہائش کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔
غاروں کے اندر بنے کمرے انتہائی خراب حالت میں ہیں۔ اگران کی مرمت کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کی مناسب سہولیات فراہم کر دی جائیں تو یہ علاقہ بین الااقوامی شہرت کا حامل بن سکتا ہے۔