بلوچستان کا پہاڑی چشمہ آب ِ شفاء، ’جِلدی امراض کا علاج‘
25 اکتوبر 2020بلوچستان میں اونچے پہاڑوں میں گھرے پر فضا مقامات کی بہتات ہے، مگر آبادی اور ذرائع مواصلات نہ ہونے کے باعث ان کی اکثریت ابھی تک سیاحوں کی نظر سے پو شیدہ ہے۔ انہی میں سے ایک آب شفا چشمہ ہے جسے مقامی افراد سندھی میں 'ٹھار لا کھا ٹھار‘ بھی کہتے ہیں جس کا ماخذ یہاں سے چند قدم کے فاصلے پر واقع پیر لا کھو کا مزار ہے اور اس سے متصل پتھروں سے بنی ہوئی ایک مسجد بھی ہے۔ مقامی افراد کے مطابق اس درگاہ سے یہ روایت منسوب ہے کہ کوئی مریض اگر پیر لاکھو کا نام لے کر اس چشمے کے پانی میں غسل کرے تو اس سے ہر طرح کی الرجی سے کچھ دن میں شفا مل جاتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان سے ہزاروں زائرین اس درگاہ پر حاضری دینے آتے ہیں جن کی اکثریت کسی طرح کی الرجی میں مبتلا افراد کی ہوتی ہے۔
اپنے ہی دشت میں بھٹکتا بلوچستان
کیا آپ بلوچی تھیریم یا بیسٹ آف بلوچستان کے بارے میں جانتے ہیں؟
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
کیا اس چشمے کے پانی میں الرجی کے مریضوں کی شفاء ہے یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے یہاں آنے والے سیاح ببرک کارمل جمالی سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق جھل مگسی سے ہے اور وہ برسوں سے ایسا سنتے آئے ہیں: ''اس کے پانی میں ہر طرح کی الرجی کا علاج ہے۔ اگرچہ اس چشمے تک پہنچنا آسان نہیں ہے اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے کو پیدل یا بائیک کے ذریعے ہی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہر موسم خصوصاﹰ گرمیوں میں یہاں ہر برس ہزاروں زائرین اور مریض آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر لوٹتے ہیں۔‘‘ ببرک کے مطابق انھوں نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ اس کے چشمے کے پانی میں پہاڑوں سے معدنیات شامل ہو جاتی ہیں جو جِلدی امراض کے لیے شفا اور ٹھنڈک کا باعث بنتی ہیں مگر ابھی تک اس پانی کا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کروایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اس پانی کو یہاں سے چند کلومیٹر دور لے جایا جائے تو اس کی تاثیر ختم ہوجاتی ہے۔
سائنس کیا کہتی ہے؟
چونکہ بلوچستان میں تعلیم و شعور کی کمی ہے لہٰذا یہاں کے مقامی افراد یہ نہیں جانتے کہ گرم پانیوں کے ایسے چشمے دنیا کے کئی حصوں میں موجود ہیں جن کے بارے میں معلومات قدیم رومن اور مصری تاریخ سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان چشموں کے پانیوں میں شامل سلفر جِلد کے امراض کی شفا کا باعث بنتی ہے مگر یہ پانی صحت خصوصاﹰ انسانی نظام ِ انہضام کے لیے شدید نقصان دہ بھی ہے۔
جرنل آف ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ پروموشن میں شائع ہونے والی ایرانی محقق محمد مہدی پارویزی کی ایک تحقیق کے مطابق انسانی جِلد کے سیل کی اوپری تہہ ایپی ڈرمس میں سلفر اور آکسیجن کے تعامل سے جو ہائیدروجن سلفائیڈ تیار ہوتا ہے وہ بعد ازاں پینٹوتھینک ایسڈ یا وٹامن بی فائیو میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کسی چشمے کے پانی میں اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی فنگس سرگرمی اسی پینٹو تھینک ایسڈ کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ پانی الرجی، کیل مہاسوں کے علاج ، ٹانگوں کے السر اور ایسے امراض کے علاج میں معاونت کرتا ہے جو انسانی مدافعاتی نظام کو کمزور کرتے ہیں۔
چونکہ آب شفا چشمہ بلند پہاڑی سلسلوں سے پھوٹتا ہے جہاں سے سلفر کی کچھ مقدار پانی میں شامل ہوتی رہتی ہے، اس پانی میں نہانے سے یہ سلفر انسانی جلد میں داخل اور آکسی ڈائزڈ ہو کر الرجی کے امراض کی شفا کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرماٹولوجی میں ایسی تھیراپیز کا استعمال بڑھ رہا ہے جن میں قدرتی معدنیات شامل ہوں۔
آب شفاء کا یہ دیدہ زیب مقام ایک ویرانہ ہے مگر اب امید ہو چلی ہے کہ سی پیک مکمل ہو نے کے بعد اس مقام کی سیاحتی اہمیت میں اضافہ ہو جائے گا۔