بم نہیں کتابیں: پاکستان کا ادبی میلہ
6 فروری 2011کراچی میں منعقد اس نمائش کی منتظم آمنہ سید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نمائش کے انعقاد کا مقصد نہ صرف پاکستانی مصنفین کی کتابوں کی اہمیت بلکہ عوام میں کتابیں خریدنے اور مطالعے کے شوق کو بھی اجاگر کرنا ہے۔
اس نمائش میں سو سے زائد مصنف اور ادیب حصہ لے رہے ہیں۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے بھی چند مصنف اس کتاب میلے میں شریک ہیں۔ آمنہ سید کے مطابق چھ بھارتی مصنفوں کو بھی نمائش میں شرکت کے لیے بلایا گیا تھا۔ تاہم ان میں سے صرف تین کو ویزا ملا ہے۔
گزشتہ سال کی نسبت اس مرتبہ نمائش میں شرکاء کی تعداد دو گنا ہے۔ پانچ ہزار سے زائد افراد اپنے پسندیدہ مصنفوں سے ملنے اور ان کی تقاریر سننے کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مشہور مصنف ایچ ایم نقوی کی اہلیہ عالیہ نقوی کا کہنا ہے کہ اس نمائش کے انعقاد سے کراچی اور پاکستان کے امیج کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
اس نمائش میں مشہور پاکستانی مصنف احمد رشید بھی شریک ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی ’طالبان‘ نامی کتاب کا امریکہ میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کتاب میلے میں تقریر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’ہمیں ہر وقت اپنی ناکامیوں کے لیے امریکہ کو موردالزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔’
تاہم اس نمائش میں زیادہ تر انگریزی ادب سے وابستہ مصنفین اور پڑھنے لکھنے والوں کو مدعو کیا گیا ہے اور انگریزی زبان پاکستان میں صرف متمول طبقے تک ہی محدود ہے۔ یومیہ ایک ڈالر سے کم آمدنی والا طبقہ اس نمائش سے کوسوں میل دور ہے۔ اس کتاب میلے کو برطانوی سفارتخانے اور آکسفورڈ پریس کی طرف سے اسپانسر کیا گیا ہے اور یہ اتوار کو اختتام پذیر ہوگا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل