1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بندر، مداری اور پاکستانی عوام

6 جولائی 2022

یورپی دنیا میں کسی کو علم ہو نہ ہو لیکن پاکستانی اور بھارتی باشندے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ مداری کسے کہتے ہیں اور اس کی آمدنی میں بندر کا کردار کتنا کلیدی ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DjYC
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

جو بات خاص طور پر پاکستانی عوام شاید نہیں جانتے، وہ یہ ہے کہ بات اگر سیاست کی ہو، ملک ان کا اپنا ہو، معیشت بحرانی حالات کا شکار ہو، حکمران وہی طبقہ ہو، جو عشروں سے چلا آ رہا ہے، تو مداری کون ہوتا ہے اور بندر کون؟

کسی بھی ریاست کے باشندوں میں گروہ بندی تین بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ ایک حکمران طبقہ، جو جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتا ہے۔ وہی طبقہ، جس کا تعلق اگر پاکستان سے ہو، تو الیکشن کے بعد اگلے چار سال تک وہ پلٹ کر اپنا انتخاب کرنے والے رائے دہندگان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔

سمجھا یہ جاتا ہے اگر ووٹ دینے سے پہلے یا بعد میں ووٹروں کو قیمے والے نان یا بریانی کھلا دی گئی، انہیں پولنگ سٹیشنوں تک لانے لے جانے کا اہتمام کر دیا گیا یا اگر ووٹنگ سے پہلے حکمران جماعت کے پہلے سے رکن پارلیمان چلے آ رہے سیاست دانوں نے نادرہ کی اسپیشل گاڑیاں اور عملہ بلوا کر ان کے شناختی کارڈ بنوا دیے، تو یہ قیمت تو کسی ووٹر کے ووٹ کی قیمت سے پہلے ہی سے بہت زیادہ ہے! اب اور کچھ بھلا انہی ووٹروں کو حکمرانوں سے کیا مانگنا چاہیے اور کیوں؟

دوسرا طبقہ ریاست کے انتظامی ڈھانچے کے نمائندوں اور سرکاری ملازمین پر مشتمل اس نوکر شاہی کا ہوتا ہے، جو حکمرانوں اور محکوموں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے اور مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر اصل حکمران ہوتی تو ہے مگر عوامی سطح پر اصل حکمران سمجھی نہیں جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام کا واسطہ کبھی کبھار ہی سہی لیکن سیاست دانوں سے پڑتا ہے۔ نوکر شاہی تو درمیان کا وہ ’’غائب‘‘ پل ہوتی ہے، جسے عام شہری اکثر دیکھ ہی نہیں پاتے۔

تیسرا طبقہ وہ عوام ہوتے ہیں، جو کم از کم پاکستان جیسے ممالک میں مجبور ہوتے ہیں اور محروم بھی۔ اگر مارشل لاء نہ لگے اور کوئی باوردی، حاضر سروس جرنیل صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹیو نہ بن جائے، تو الیکشن ہونے کی صورت میں انہی عام شہریوں کو ہر چار سال بعد صرف ایک بار کسی نہ کسی سیاست دان کی طرف سے یہ بتایا جاتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ تو دراصل وہی ہیں۔

اس کے بعد الیکشن کا دن گزر جائے، ووٹر پولنگ اسٹیشن کا چکر لگا کر، جمہوری ضابطوں کے مطابق اپنے نمائندے منتخب کر کے اور قیمے والا نان یا بریانی کی ایک پلیٹ کھا کر واپس اپنے گھر پہنچ جائے، تو وہ واقعی دوبارہ اسی گڑھے میں گر کر اپنی اوقات میں آ جاتا ہے، جس میں وہ ووٹ دینے سے پہلے بھی گرا ہوتا ہے۔

بندر اور مداری کے موازنے کو پاکستان کی حد تک یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد چند ہی برسوں میں کروڑ پتی اور ارب پتی بن جانے والے سیاست دان اور ہمیشہ سے حکومت میں حکمرانوں کو محکوموں سے جوڑنے والی نوکر شاہی ہی دراصل وہ دو رخی اشرافیہ ہیں، جو ہمیشہ سے پاکستان میں اقتدار میں رہی ہیں۔

یقین نہ آئے تو جرنیلوں کرنیلوں کی اربوں کی جائیدادیں اور ملازمت کے بعد مغربی ممالک میں اپنے بچوں کے پاس سکونت اختیار کر لینے والے ان ڈپٹی کمشنروں اور سیکرٹریوں ہی کو دیکھ لیں، جن کی اکثریت کی پینشنوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے نجی ملازمین کی صرف تنخواہیں ہی پوری ہوتی ہیں اور جن کا اصل گزارہ ان وسائل سے ہوتا ہے، جو کسی بھی حکومتی ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہوتے۔

رہ گئی بات بندر کے طور پر ’’فرائض آمدنی‘‘ انجام دینے والے عوام کی تو وہ بس ناچتے ہی رہتے ہیں۔ مداری کی بھوک کبھی ختم نہیں ہوتی اور بندر اس کا پیٹ بھرتے رہنے کے لیے کرتب دکھاتے رہتے ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں تین ہفتے میں ہونے والا تیسرا ہوش ربا اضافہ ہو، بجلی کے یونٹوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں ہوں یا آٹے، دال اور کوکنگ آئل کے آسمان کو چھوتے نرخ، یہ سب صرف غریب آدمی کے ذاتی مسائل سمجھے جاتے ہیں، جو صرف اسے خود ہی حل کرنا ہوتے ہیں۔ افراط زر بھی غریب آدمی کا مسئلہ ہے، جب پیسہ ہو تو افراط زر بھلا کیا ہوتا ہے؟

ویسے غریب آدمی کے مسائل حل بھی کہاں ہوتے ہیں؟ حل تو یہ نکلتا ہے کہ کوکنگ آئل کم سے کم استعمال کرو، جس کسی بھی بالغ مزدور یا کارکن کو دوپہر یا رات کے کھانے کے لیے دو روٹیوں کی بھوک ہو، وہ بس ایک روٹی کھائے اور بجلی؟ بجلی کے استعمال کی خواہش یا ضرورت ہی بھلا کیا ہے! ہاں بجلی کا بل جس دن ملے، عموماً اس سے اگلے ہی دن بل ادا کرنے کی آخری تاریخ ہوتی ہے، تو یہ بل تو ہر حال میں اسی روز ادا کیا جانا چاہیے۔ ایسے میں گھر کا چولہا ٹھنڈا رہنے کا بل کی ادائیگی سے بھلا کیا تعلق ہے؟

پاکستان کے بہت سے شہروں کے کینٹ کہلانے والے علاقوں میں اگر بجلی کی کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی اور نوکر شاہی کے گورنمنٹ آفیشلز ریذیڈنس یا جی او آر کہلانے والے برطانوی نوآبادیاتی دور سے چلے آ رہے رہائشی علاقے اگر کسی بھی شہر کی کچی آبادیوں کے مقابلے میں جنت نظیر نظر آتے ہیں تو یہ حکمرانوں یا کئی کئی کنال پر پھیلی ہوئی رہائش گاہوں میں رہنے والے اور ’’عوام کے غم میں نڈھال‘‘ بیوروکریسی کا قصور تو نہیں، قصور تو ان ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ، سرکاری ہسپتالوں میں پچاس روپے کی پرچی پر علاج کے خواہش مند اور رات کو سوتے ہوئے پیٹ بھر کر روٹی کھانے کی تمنا رکھنے والے عام شہریوں کا ہے، جو نہ تو حکمران طبقے کا حصہ ہیں، نہ ہی اپنے شہر کے کینٹ نامی علاقے میں رہتے ہیں اور نہ ہی نوکر شاہی کا حصہ ہے۔

بندر کو سمجھ لینا چاہیے کہ اسے روٹی کا وہی ٹکڑا کھانے کو ملے گا، جو مداری کی بھوک مٹ جانے کے بعد باقی بچے گا۔ اس سے زیادہ انصاف سن دو ہزار بائیس میں اور آج کے پاکستان میں تو ’’بوجوہ‘‘ ممکن نہیں۔ یہ سوال پوچھنے کی اجازت کسی کو نہیں کہ اگر بندر نہ رہا تو مداری کھائے گا کیا؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔