بنگلہ دیش انتخابات میں لبرل قوتوں کی فتح
31 دسمبر 2008فوج کی سرپرستی میں اپنے فرائض انجام دینے والی عبوری حکومت نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور اس نے دو سال بعد بنگلہ دیش کو ایک بار پھر جمہوریت کی راہ پرڈال دیا ہے۔
یہ ہے موجودہ انتخابات کا اہم ترین پیغام۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انتخابات بڑی حد تک پرامن اور شفاف رہے اور جیتنے والے فریق نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔
17 دسمبر کو جب ہنگامی حالات ختم کئے گے تھے تو یہ سب باتیں واضح نہ تھیں۔ اب منتخب سیاستدانوں کو ایک اور موقع ملا ہے جمہوریت کو فروغ دینے اور ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کا۔ آیا اگلے ہفتوں اور مہینوں کے دوران اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے۔
تاہم اس ملک کی تاریخ اوراب تک کے تجربات اس کی نفی کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں جو بھی جماعت برسراقتدار آئی اس نے اپنے سیاسی مخالفین کو بری طرح سے تنگ کیا۔ جنوری 2007 کے انتخابات سے قبل حکومت اور اپوزیشن کے حامیوں کے درمیان پُر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔ دونوں جانب سے غیر مصالحتی رویہ اپنایا گیا۔
بالآخرفوج کو مجبور ہو کر مداخلت کرنا پڑی۔ اس نے ایک عبوری حکومت تشکیل دی۔ جس نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے بہت کچھ کیا۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد کو بدعنوانیوں اور رشوت ستانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ بعض پر مقدمات چلائے گے، انہیں قید میں ڈالا گیا۔ بدعنوان سیاستدانوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ ان کارروائیوں کے دوران حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں۔ تقریبا ً 300 افراد مارے گئے اور یہ پتہ نہ چل سکا کہ انہیں کس نے موت کے گھاٹ اتارا۔ پریس کی آزادی محدود بنا دی گئی۔ شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کے خلاف عدالتی کارروائی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔
تاہم عبوری حکومت کی کامیابیوں کا میزانیہ مثبت رہا۔ ووٹروں کی نئی فہرستیں ترتیب دی گئیں۔ بدعنوان سیاستدانوں پر الیکشن کے دروازے بند کر دئے گئے۔ انتخابات میں ووٹوں کی شرح 70 فی صد کے لگ بھگ رہی۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں نے کس جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور ان کے اتحادیوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ بنگلہ دیش کی نئی قیادت آئندہ کیا کردار ادا کرتی ہے۔