1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش بلوچستان کے معاملے پر مودی کے ساتھ

عاطف توقیر18 اگست 2016

بنگلہ دیش کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ بلوچستان کے معاملے میں بھارتی وزیراعظم نیرندر مودی کے موقف کا ساتھ دے گا اور اس حوالے سے وہ جلد ہی ایک اعلامیہ جاری کرے گا۔

https://p.dw.com/p/1Jl7m
Bangladesch Sheikh Hasina Premierministerin
تصویر: Getty Images/AFP/D. Emmert

بدھ کے روز ایک بھارتی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے بھارت کا دورہ کرنے والے بنگلہ دیشی وزیر برائے اطلاعات حسن الحق اِنو نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے موضوع پر ان کا ملک بھارتی وزیراعظم نیرندر مودی کے ساتھ ہے۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی کابینہ میں شامل اس وزیر کا کہنا تھا کہ بلوچستان بھی پاکستانی فوج کے وہی زخم برداشت کر رہا ہے، جیسے سن 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام سے قبل مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کو دیے تھے۔

ان کا کہنا تھا، ’’مختلف قومیتوں کی بات کی جائے، تو پاکستان کا ٹریک ریکارڈ انتہائی برا ہے۔ پاکستان نے 1971ء کی شکست سے کچھ نہیں سیکھا اور لوگوں کو طاقت کے زور پر دبانے کی وہی پالیسیاں جاری رکھیں۔ اب وہ اسی طریقے سے بلوچ قوم پرستوں کو ہدف بنا رہا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’بنگلہ دیش دستوری طور پر پابند ہے کہ وہ آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے۔ ہم جلد ہی بلوچستان کے موضوع پر اپنی پالیسی باقاعدہ طور پر جاری کر دیں گے۔‘‘

بنگلہ دیشی وزیر کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب ایک روز قبل بھارتی وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور ایم جے اکبر نے بلوچستان کے معاملے کو سن 1971ء میں مشرقی پاکستان کی آزادی کی صورت حال سے تشبیہ دی تھی۔

حسن الحق اِنو بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں مکتی باہنی کے رکن رہے ہیں۔ مکتی باہنی تحریک آزادی میں پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے والی قوت تھی۔

Indien Unabhängigkeitstag in Neu-Delhi
مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستان پر شدید تنقید کی تھی اور بلوچستان کا ذکر بھی کیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/EPA/H. Tyagi

پاکستان کا ردعمل

پاکستانی مذہبی سیاسی پارٹی جماعتِ اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے قیام کے بعد اب بنگلہ دیش بھارت کا ’ایک صوبہ‘ بن چکا ہے اور صرف بھارتی خوشنودی کے لیے کام کر رہا ہے۔

’’بنگلہ دیش میں گزشتہ انتخابات میں ایک بڑے حصے میں تو الیکشن ہی نہیں ہوا۔ اس وقت جو بنگلہ دیش کی حکومت ہے، وہ برائے نام جمہوری ہے اور پالیسیوں کے لحاظ سے بنگلہ دیش کو بھارت کا ایک اور صوبہ بنا دیا ہے۔ ہمیں خطے کو جوہری جنگ سے بچانے کے لیے تمام ممالک کو ایک دوسرے کے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اور پراکسی جنگ کی بجائے اصل مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں اور اصل مسئلہ بلوچستان نہیں کشمیر ہے۔‘‘

انہوں نے تاہم بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان میں مارشل لا ء جب جب آیا ہے، اس کے بعد پاکستان کا جغرافیہ تبدیل ہوا ہے۔ اس لیے تمام اداروں کو اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ فوجی آپریشن اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘

بلوچستان میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسا صرف بلوچستان نہیں بالکل ملک بھر میں ہوتا ہے۔ ’’دیکھیے پاکستان میں فوج ایک حقیقت ہے اور اس کے اثرات بھی موجود ہیں اور اس میں سیاست بھی شامل ہے۔ اس میں ایک وجہ کمزور جمہوری قیادت بھی ہے، جس کے نتیجے میں فوج سیاسی معاملات میں دخل اندازی کرتی ہے۔ بلوچستان میں بھی سیاسی طور پر غربت، افلاس اور دیگر شعبوں میں ترقی کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں عسکری کارروائیوں کے درپردہ غیرملکی قوتیں ہیں۔‘‘

ادھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP)سے وابستہ آئی اے رحمان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ بنگلہ دیش کے اس معاملے میں اتر آنے کے بعد خطے میں امن کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچے گا۔ ’’میں یہ تمام حالات ابتر ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں ظاہر ہے دو آراء نہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے معاملات خراب ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش نے یہ پوزیشن کیوں اختیار کی ہے۔ بنگلہ دیش کے تعلقات بھارت کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ظاہر ہے تلخی پائی جاتی ہے، کیوں کہ پاکستانی حکومت نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو دی جانے والی سزاؤں پر احتجاج کیا تھا۔ اب یہ کوئی بڑی بات معلوم ہوتی ہے، مگر ظاہر ہے اس پورے معاملے پر افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے۔‘‘