بنگلہ دیش، جنگی جرائم کے قوانین میں ترامیم
12 فروری 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈھاکا سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ نے جنگی جرائم کے قوانین میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے۔ ان ترامیم کی وجہ سے اب 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں پر عائد ایسے الزامات اگر ثابت ہو جاتے ہیں کہ وہ قتل عام اور آبروریزی کے واقعات میں ملوث تھے، تو ان کی سزا پر عملدرآمد کو جلد از جلد یقینی بنایا جا سکے گا۔
ملکی کابینہ کی طرف سے یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ سات دنوں سے ہزاروں افراد احتجاجی مظاہروں کے دوران حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگی جرائم کے مرتکب مشتبہ افراد کو فوری طور پر سزا دی جائے۔ بنگلہ دیش کی عدلیہ میں اس وقت دس مشتبہ افراد کے خلاف مقدمے جاری ہیں۔ ان تمام افراد کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ جنگ آزادی کے دوران قتل عام اور آبروریزی کے واقعات میں ملوث تھے۔
ایسے ہی الزامات کا سامنا کرنے والے اپوزیشن جماعتوں کے دو سابق رہنماؤں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں ان تازہ مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب ایک عدالت نے جماعت اسلامی کے سابق رہنما عبدلقادر مولا کو جنگی جرائم میں ملوث قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ سزا ’انتہائی نرم‘ ہے۔
’عدالتی کارروائی کی شفافیت پر شکوک‘
بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی کابینہ کے سیکرٹری مشرف حسین نے بتایا ہے کہ ان ترامیم کی بدولت اب جنگی جرائم کے سزا یافتہ افراد کی سزاؤں پر عملدرآمد بہت جلد ممکن بنایا جا سکے گا۔ انہوں نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایپلٹ ڈویژن کو سزا کے خلاف دائر کی جانے والی اپیلوں کو نمٹانے کے لیے ساٹھ دن کی مہلت دی گئی ہے، ’’ اس سے قبل اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا۔‘‘ مشرف کے بقول اگر کسی کو سزائے موت سنائی جاتی ہے تو اس کی سزا پر عمل رواں برس ہی ممکن ہو جائے گا۔
بنگلہ دیش میں عدلیہ کا نظام انتہائی سست رفتار قرار دیا جاتا ہے، جہاں لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں اور کئی اوقات کسی ایک مقدمے کی سماعت کی اگلی تاریخ دینے میں برسوں گزر جاتے ہیں۔ مشرف حسین نے مزید بتایا ہے کہ ملکی پارلیمان آئندہ کچھ دنوں میں اس قانون کی منظوری دے دی گی۔
ملکی جنگی عدالت ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبینول‘ میں جاری مقدمات میں جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے بعض ارکان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن نے اس جنگی جرائم کی عدالت کے قیام کو ’سیاسی انتقام‘ لینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر انسانی حقوق کے متعدد ادارے بھی اس جنگی ٹریبینول کی غیر جانبدرایت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ab/ah (AFP)