بنگلہ دیش: عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن، آٹھ ہزار گرفتار
13 جون 2016بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ نے گزشتہ ہفتے کے روز احکامات جاری کیے تھے کہ’ہر ایک قاتل‘ کو گرفتار کیا جائے۔ بنگلہ دیش میں اقلیتی اور سیکولر کارکنوں کو گزشتہ ایک عرصے سے منظم انداز میں وقفے وقفے سے قتل کیا جا رہا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ان وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پولیس کے ایک ترجمان قمر الاحسان کا پیر کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے مزید تین ہزار دو سو پینتالیس مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر گرفتار کیے جانے والے مشتبہ عسکریت پسندوں کی تعداد آٹھ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
بنگلہ دیشی حکام کو اس وقت بین لاقوامی دباؤ کا بھی سامنا ہے کیوں کہ گزشتہ ایک برس کے دوران اس طرح کی کارروائیوں میں تقریباﹰ پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ملکی اپوزیشن نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ حکومت یہ کارروائیاں سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپوزیشن کے مطابق نام تو عسکریت پسندوں کا لیا جا رہا ہے کہ حقیقت میں اپوزیشن کے سیاسی کارکنوں کو حراست میں لیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب ڈپٹی انسپکٹر جنرل شاہد الرحمان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ملک بھر میں ہونے والے کریک ڈاؤن کے تیسرے دن ہم نے تین ہزار دو سو پینتالیس افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان میں چونتیس اعلیٰ شدت پسند بھی شامل ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ یہ جو لوگ گرفتار کیے گئے ہیں، ان میں سے صرف ایک حصہ ایسا ہے، جس کا تعلق عسکری اور شدت پسند گروپوں سے ہے۔ باقی جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف وارنٹ جاری ہو چکے تھے اور یہ لوگ منشیات، اسلحہ اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں۔‘‘
بنگلہ دیش میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں حالیہ چند دنوں میں پانچ مشتبہ عسکریت پسند مارے بھی گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں جمعیت المجاہدین بنگلہ دیش کے اراکین بھی شامل ہیں۔