بنگلہ دیش میں جنوری سے ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کی واپسی
29 دسمبر 2017بنگلہ دیش میں کوکس بازار سے جمعہ انتیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملکی حکام نے بتایا کہ ڈھاکا حکومت چاہتی ہے کہ میانمار کی ریاست راکھین سے نسلی خونریزی سے فرار ہو کر جو لاکھوں بے وطن، مسلم اقلیتی مہاجرین سرحد پار کر کے کوکس بازار پہنچے تھے، ان کی میانمار واپسی جلد از جلد شروع ہونا چاہیے۔
اجتماعی قبر کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، فوجی سربراہ
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے گھر اب بھی جلائے جا رہے ہیں
ڈبلن سٹی کونسل نے آنگ سان سوچی کو دیا اعزاز واپس لے لیا
اس حوالے سے ڈھاکا میں شیخ حسینہ کی حکومت میں کابینہ کے سینئر رکن عبید القادر نے اے ایف پی کو بتایا کہ آج ہی انتیس دسمبر کو ایک لاکھ روہنگیا مہاجرین کے ناموں کی فہرست میانمار میں حکام کو بھجوا دی گئی ہے، تاکہ دونوں ہمسایہ ممالک کی حکومتوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے تحت جنوری کے اواخر سے ان پناہ گزیوں کی واپسی کا عمل شروع ہو سکے۔
میانمار کی ریاست راکھین سے اس سال اگست کے اواخر میں وہاں ملکی فوج کے اس بے وطن برادری کے خلاف شروع کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد سے اب تک چھ لاکھ پچپن ہزار سے زائد روہنگیا باشندے بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں۔ اس کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ کے علاوہ امریکی حکومت بھی روہنگیا مسلم برادری کی نسلی تطہیر کا نام دے چکی ہے۔
ایک ماہ میں 6700 روہنگیا کو ہلاک کیا گیا، امدادی گروپ
پوپ نے بنگلہ دیش اور میانمار کا دورہ مکمل کر لیا
میانمار میں نسلی عصبیت کی پالیسی ختم کی جائے، ایمنسٹی
اس وقت بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی مجموعی تعداد ساڑھے نو لاکھ سے زیادہ ہے، کیونکہ اس سال اگست سے وہاں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد مہاجرین کی آمد سے قبل میانمار ہی میں گزشتہ بدامنی اور نسلی خونریزی سے جان بچا کر بھاگنے والے تین لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پہلے ہی سے مقیم تھے۔
میانمار اور بنگلہ دیش کی حکومتوں کے مابین ان لاکھوں مہاجرین کی واپسی کا ایک دوطرفہ معاہدہ گزشتہ ماہ نومبر میں طے پایا تھا، جس کے تحت ان پناہ گزینوں کی میانمار واپسی 23 جنوری سے شروع ہو جائے گی۔ کئی امدادی تنظیموں، سفارت کاروں اور بین الاقوامی اداروں کو خدشہ ہے کہ میانمار میں ابھی تک حالات اتنے بہتر نہیں ہوئے کہ خوف کا شکار اِن پناہ گزینوں کی اکثریت میانمار واپسی پر آمادہ ہو جائے۔
میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیت کو، جس کا بڑا حصہ ریاست راکھین میں آباد تھا، ماضی میں بھی متعدد مرتبہ بدھ مت کی اکثریت والے اس ملک میں اسی اکثریتی آبادی کے مسلح حملہ آوروں کے ہاتھوں قتل عام کا سامنا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت روہنگیا باشندوں کو ایک باقاعدہ نسلی گروپ بھی تسلیم نہیں کرتی اور انہیں مقامی شہریت سے بھی محروم کیا جا چکا ہے۔ اسی لیے یہ لاکھوں انسان بے وطن تصور کیے جاتے ہیں۔